تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری یوں تو دنیا میں ہر مہذب سمجھی جانے والی قوم کا تقریباً یہ رواج ہے کہ آپسی میل ملاپ اور ملاقات کے وقت موانست و محبت کا کوئی نہ کوئی جملہ اپنے مخاطب کو مانوس و مسرور کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، مثلا ہمارے ہندوستان میں برادران وطن ملاقات کے وقت ’’نمستے ‘‘ یا ’’نمسکار ‘‘کہتے ہیں،اس میں کچھ پرانے قسم کے لوگ ’’رام رام‘‘کہا کرتے ہیں، اور تہذیب نو کے علم بردار و دعوے دار صبح کی ملاقات کے وقت کہتے ہیں گڈمارننگ، یعنی اچھی صبح، شام کی ملاقات کے وقت گڈ اوننگ یعنی اچھی شام، اور رات کی ملاقات کے وقت گڈ نائٹ یعنی شب بخیر، عجیب بات یہ ہے کہ یہ رواج کوئی نیا نہیں، بلکہ زمانۂ جاہلیت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل خود عربوں میں بھی اس طرح کے کلمات کہنے کا رواج تھا، چناںچہ ابو داود شریف میں حدیث ہے : سیدنا عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں ہم جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو کہتے :حَیَّاکَ اللّٰہُ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں زندہ رکھے ،أَنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا، یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے ، یا أَنْعِمْ صَبَاحاًیعنی تمہاری صبح اچھی اور خوش گوار ہو، پھر جب اسلام کاآفتاب طلوع ہوا اور ہم دورِ جاہلیت کی تاریکی سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آئے تو ہمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرما دیا ۔(مشکوٰة شریف)آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرزِتحیہ کو بدل کر ’’السلام علیکم ‘‘ کہنے کا طریقہ جاری فرمایا، اس کے معنیٰ ہیں کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلامتی ہو،اللہ اکبر کبیرا !اسلامی سلام کس قدر جامع دعا بھی ہے ،یعنی عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی دعا نہیں،بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو تمام بری چیزوں ،بلاؤں، آفتوں،مصیبتوں اور تکلیفوں سے محفوظ اور سلامت رکھے ،پھراسی کے ساتھ سلام کرنے والا سلامتی کی اس دعا کے ضمن میں گویایہ وعدہ بھی کر رہا ہے کہ تم خود بھی مجھ سے سلامت ہو۔
میرے ہاتھ اور زبان کی تکلیف سے محفوظ اور مامون ہو،اور میں تمہاری جان مال اورآبروکا محافظ ہوں،چنانچہ اسی کو ابن عربی نے احکام القرآن میں امام ابن عیینہ سے نقل کیا کہ أَتَدْرِیْ مَا السَّلامُ؟ یَقُوْلُ: أَنْتَ آمِن مِنِّیْ یعنی تم جانتے ہو سلام کیا چیز ہے ؟ سلام کرنے والا یہ کہتا ہے کہ تم مجھ سے مامون ہو،اسلامی سلام کا ان حقائق کے پیش نظردوسری اقوام کے سلام سے موازنہ کیا جائے تو واضح ہوگا کہ اس سے بہتر کوئی دوسرا سلام نہیں۔نیز اس کے بہتر ہونے کی ایک او روجہ بھی ہے ،جیساکہ ملا علی قاری فرماتے ہیں : اَلسَّلاَمُ اِسْم مِنْ أَسْماَئِ اللّٰہِ، وَضَعَہُ اللّٰہُ فِیْ الأَرْضِ(مرقاة)سلام تو در حقیقت اللہ تعالیٰ کا وہ پیارانام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے زمین پر اتارا ہے ،لہٰذا اس سے بہتر کوئی سلام کیسے ہو سکتا ہے ؟اسی لیے حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ کسی صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا، حضرت شیخ الاسلام علامہ مفتی محمدتقی عثمانی? مدظلہ? فرماتے ہیںکہ یہ ابتدائِ اسلام کا زمانہ تھا، اور اس وقت اللہ تعالیٰ کا نام وضو کیے بغیر لینا مکروہ تھا اور اتفاقاًآپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت وضو سے نہ تھے اور نہ وضو کا موقعہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے تیمم کیا، پھر جواب دیا،ارشاد فرمایا: مجھے اچھا نہ معلوم ہوا کہ بغیر تیمم (اور طہارت) کے اللہ تعالیٰ کا نام لوں۔ سلام کروں۔
Allah
سلام کی فضیلت :بہر کیف! حقیقت یہ ہے کہ سلام کے آداب واحکام کی رعایت کرتے ہو ئے اسے عام کیا جائے تویہ خیر،رحمت،برکت اور آپسی محبت کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہونے کے ساتھ اسبابِ مغفرت میں سے بھی ہے ،کاش! ہم اس پاکیزہ کلمۂ سلام کو عام لوگوں کی طرح رسمی طور پر ادا نہ کریں، بلکہ حقیقت کے ساتھ سنت اور خلوصِ نیت سے ادا کریں تو یہی سلام اتحادِ ملت کے لیے جہاں معین ہوسکتا ہے وہیں مغفرت کا سبب بھی ہو سکتا ہے ۔ حدیث میںہے :اِنَّماَ مُوْجِبَاتُ الْمَغْفِرَةِ بَذْلُ السَّلاَمِ وَ حُسْنُ الْکَلَامِ(کنز العمال)مغفرت واجب کرنے والے اعمال میں سلام کو پھیلانا اور کلام کو نرمی و خوبی سے پیش کرنا بھی داخل ہے ۔دوسری روایت میں ہے کہ: مَنْ سَلَّمَ عَلیٰ عِشْرِیْنَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ یَوْمٍ جَمَاعَةً أَوْ فُرَادیٰ، ثُمَّ مَاتَ مِنْ یَوْمِہ ذَالِکَ، وَجَبَتْ لَہ الْجَنَّةُ، وَفِیْ لَیْلَةٍ مِّثْلُ ذَالِکَ(رواہ الطبرانی، مجمع الزوائد)یعنی جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں میں سے بیس لوگوں کو خواہ وہ مجمع میں ہوںیا فردا ً فرداً ہوں، کسی دن یا رات میں سلام کر ے ،پھر اس دن یا رات میں اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے لیے جنت واجب ہے ۔غور کیجئے !اسلام میں سلام کی کس قدر عظمت و فضیلت ہے۔
سلام کے احکام :الغرض! سلام ایک بہترین عمل و دعاہے ،او راسلام میں اس کی خاص اہمیت و فضیلت ہے ،لیکن یہ اس وقت ہے کہ جب کہ اس کے احکام و آداب کی رعایت کے ساتھ ہو، اسلام نے جہاںہر چیز کے احکام و آداب بتلائے وہیں سلام کے بھی احکام بیان فرمائے ، مثلاً : (1)سلام کرنا سنت ہے ، مگر اس کا جواب دینا واجب ہے ، البتہ فقہی نقطۂ نظر سے پیشہ ور سائل کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں، کیوںکہ بقول فقیہ النفس علامہ سعید احمد پالنپوری مدظلہ اس کا سلام سلا م نہیںہے، بلکہ سوال ہے۔ (تحفةا لالمعی) ( 2)سلام اور اس کا جواب خلوصِ نیت کے ساتھ سنت کے مطابق سمجھ کر جمع کے صیغہ کے ساتھ دیا جائے ،اگر چہ مخاطب فردِ واحد ہو، تاکہ فرشتے (کراماً کاتبین ) جو ہر ایک کے ساتھ ہیں سلام میں مخاطب کے ساتھ شامل ہو کر ان کو سلام کرنے کا بھی ثواب مل جائے ، اور پھر جب وہ سلام کا جواب دیں تو ان کی دعا ہمیں مل جائے ۔
(3)سوارشخصپیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں، یہ حکم در اصل تواضع و انکساری کی طرف راغب کرنے کے لیے ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذکورہ لوگ سلام نہ کریں تو ہم پہل بھی نہ کریں، بلکہ اس وقت ہم سلام میں پہل کرکے ابتداء بالسلام کی فضیلت کے حقدار بن جائیں ۔حدیث میںہے :عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ عَنِ النَّبِیِّۖ قَالَ:اَلْبَادِیُٔ بِالسَّلامِ بَرِیْیٔ مِّنَ الْکِبْرِ(مشکوٰة)سلام میں پہل کرنے والا (اس عمل کی وجہ سے )تکبر سے پاک ہے ۔ تکبر کابہترین علاج یہ بھی ہے کہ ہر ملنے والے مسلمان کو سلام کرنے میںسبقت کرے۔
(4)آپس میں ملاقات کے وقت بات چیت اور گفتگو سے قبل سلام کریں، اس لیے کہ حدیث شریف میں یہ ہدایت ہے : عَنْ جَابر قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِۖاَلسَّلاَمُ قَبْلَ الْکَلاَمِ(مشکوٰة)آج کل ٹیلیفون اور موبائل آمنے سامنے کی ملاقات کا بدل ہے اور ملاقات کا ذریعہ ہے ، اس لیے سلام کا جو حکم آپسی ملاقات کا ہے وہی فون کرتے اور اٹھاتے وقت کا ہوگا، لہٰذا ’’ہیلو ‘‘ کے بجائے ’’السلام علیکم‘‘ کہنا مسنون ہوگا، اور جہاں تک انجانے میں غیر مسلم کو فون پر سلام کرنے کی بات ہے تو بقول مفتی شبیر احمد قاسمی مرادآبادی مدظلہ اس میں کوئی گناہ نہیں، اور نہ یہ خلافِ احتیاط ہے ، بلکہ اس میں بھی ہمیں سلام کرنے کا ثواب مل جائے گا، البتہ پہلے سے معلوم ہو کہ غیر مسلم کا فون ہے ، یا خود آپ فون کر رہے ہیں، تو سلام سے ابتدا نہ کریں۔
(5) بعض مواقع اور حالتیں سلام سے مستثنیٰ ہیں، اس سلسلہ میں فقہائِ کرام کی تشریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ تین صورتوں اور حالتوں میں سلام کرنا منع ہے :٭ جب کوئی طاعت میں مشغول ہو، مثلاً نماز،ذکر،دعا، تلاوت،اذان و اقامت،خطبہ یا کسی دینی مجلس کے وقت ۔٭جب کوئی بشری حاجت میں مشغول ہو، مثلاً کھانے پینے ،سونے اور پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت ۔٭ جب کوئی معصیت میں مشغول ہو، تو اس موقع پر بھی سلام کی ممانعت ہے ۔سلام کے یہ اجمالی احکام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے(آمین) ایں دعا از من وا زجانب جہاں آمین باد۔
Rizwan Ullah Peshawari
تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری مدرس جامعہ علوم القرآن پشاور 0313-5920580 rizwan.peshawarii@gmail.com