تحریر : کہکشاں صابر ہم مسلمانوں کی تہذیب کئی کھو سی گئی ہے۔ ہماری تہذیب کو اس وقت کوئی آنچ نہیں آئی تھی جب مسلمان ہندستان میں ایک ساتھ رہتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے اور دنیا ترقی کر رہی ہے ہم اپنی تہذیب سے بہت ،بہت دور ہوگئے ہیں ۔۔ نہ ہمارا رہین سہن وہ رہا ،نہ ہمارا لباس ویسا رہا اور نہ ہی ہمارے رسم ورواج وہ رہے ہیں۔ اسلام کی تہذیب ایک سادہ تہذیب ہے اور سادگی میں ہی حسن و خوبصورتی ہوتی ہے۔
پر ہم لوگو ! نے دوسروں کی تہذیب اوررسم ورواج اپنا کر خود کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کی ہوئی ہیں اور کہتے ہیں جو قومیں اپنی تہذیب ،ثقافت اورروایات سے دور ہوجاتی ہیں وہ قومیں اپنی پہچان کھو دیتی ہے اور ایسی قوموں کا شمار گزرے زمانوں میں ہوتا ہے۔۔۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ہم نے ملاوٹ شروع کردی ہیں ایسی ملاوٹ جو بدتہذیب کے ساتھ ساتھ فضول خرچ بھی اپنے ساتھ لاتی ہے 14 فروری اور سال نو کی تقریبات جو خالص مغربی تہوار ہیں جس کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں۔
No Valentines Day
لیکن یہ تقریبات اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس جوش وخروش سے منائی جاتی ہے ہر سال شادی شدہ اور غیر شادی شدہ جوڑے یہ دن مناتے ہیں اپنی محبت کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں اس میں ان کی ایسی خوشیوں کا اظہار ہوتا ہے گویا یہ مسلمانوں کی شرعیت میں ہوں۔ نوجوان لوگ اپنی محبت کے اظہار کے لئے ایک دوسرے کو تحائف پیش کرتے ہیں جو کہ کارڈز اور پھولوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ آجکل یہ رسم ہمارے معاشرے کی زینت بھی بن گئی ہے ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے درپے ہے لاکھوں روپے پانی کی طرح بہایا جاتا ہے بغیر سوچے سمجھیں کہ اس روپے سے ہم کسی ضرورت مند کی مدد کر سکتے ہیں۔
ہمارے یہ پیسے کسی کام آئے گے جو ہم کو سچی خوشی اور راحت سے ہمکنار کرواسکیں گے اب تو نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بزارگ اور بچے بھی اس تقریب کو منانے اور اس میں شمولیت اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں اگر ان کو منع کیا جائے تو کہتے ہیں کہ اتنے پریشانی والے دنوں میں اگر ایک دن خوشی کا آتا ہے تو کیا ہم اس کو خوشی خوشی منا بھی نہیں سکتےکون سا کسی کا نقصان ہورہا ہے نقصان تو ہو رہا ہیں اور بہت بہت عظیم نقصان اگر ہم سمجھیں تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اپنی ثقافت اپنی تہذیب اور اپنے رسم ورواج سے دور کر رہے ہیں اپنی اصل پہچان کو گھوم کر رہے ہیں اور اس سے بڑا نقصان اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔
Cultural Changes
ہر قوم ہی اپنے تہذیبی ورثے کے فروغ کی خواہش مند ہوتی ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انداز فکر وعمل بھی بدلتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ثقافتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہے اگر ثقافت کو جدید دور سے ہم آہنگ نہ کیا جائے تو ثقافتی ٹھہراؤ طاری ہوجاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی اور کی ثقافت میں اس طرح رنگ جائے کہ اپنے اصل رنگ تک سے بے خبر ہو جائے تہذیب و ثقافت کے تمام عناصر کو دوسری نسلوں تک منتقل کرنا بھی ہمارا فرض ہیں ہمیں قومی تہذیب کو دوسری نسلوں تک ترسیل کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ ہماری اسلامی تہذیب و ثقافت محفوظ ہو سکیں۔
ہمیں اپنے نوجوانوں میں یہ احساس اجاگر کرنا ہوگا کہ تہذیب ثقافتی ورثہ اور رسم ورواج کسی بھی قوم کے تشخص کی علامت ہے اس کی عدم موجودگی میں قوم اپنی انفرادیت کھو بیٹھتی ہیں ہم کو ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے جس سے اسلام تہذیب وثقافت کے احیا و ترقی کی راہ ہموار ہو سکےاور نئی نسل اپنے ثقافتی ورثے، اسلامی تہذیب اور رسم ورواج کو اپنانے میں فخر محسوس کر سکے۔