تحریر : محمد عتیق الرحمن، فیصل آباد اسلام سلامتی کا دین ہے، اسلام دنیا میں وہ واحد مذہب ہے جو دیگر ماننے والوں کی حفاظت کا بھی حکم دیتا ہے۔حالت جنگ میں بھی اسلام ہی ہے جس نے اپنے دشمن کے بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور نہتے لوگوں کو مارنے سے منع کیا ہے۔اسلام ہی ہے جس نے کہا کہ ’’جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی ‘‘یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو اس کے حقوق سے نوازا۔عورت کوزندہ درگور کردینے والے معاشرے میں عورت کے قدموں تلے جنت عطاکردینے والامذہب بھی اسلام ہی ہے۔اسلام مساوات کا حکم دیتا ہے جس سے کسی گورے کو کالے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں ۔پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنایا گیا یہی وجہ ہے کہ غیرمسلموں کے یہاں کئی علاقے ہیں۔
شہروں میں کئی محلے اور کئی علاقے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ہیں جہاں آج تک انہیں کوئی مسئلہ نہیں بنا۔اکادکا واقعات بھی ذاتی دشمنی وعناد کی وجہ سے وقوع پذیر ہوے جن کی تحقیقات سے ثابت ہواکہ یہ کوئی مذہبی ایشو نہیں تھا ۔ پاکستان میں ہمسایہ ملک بھارت کی اقلیتیوں سے حالات قدرے بہتر ہے ۔گو اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔غیرمسلم پاکستانی بھی پاکستان میں قابل قدرخدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اکادکا کلیدی عہدوں پر ہیں تو کچھ دیگر عام پاکستانیوں کی طرح عام نوکری کرکے اپنا پیٹ پال رہے ہیں ۔ مجھے دفتر جاتے ہوئے اکثر اوقات خاکروبوں سے واسطہ پڑتا ہے جو علاقے کے بند گٹروں کو کھولنے کے لیے گٹر کی صفائی کررہے ہوتے ہیں ۔فیصل آباد جیسے شہر میں بھی ان کوشلوار یاایک ٹراوزر پہنے ہوئے گٹر کے پانی میں بغیر کسی حفاظتی اقدام کے خدمت کرتے ہوئے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ دوردراز علاقوں میں ان کے ساتھ کیا بیتتی ہوگی ۔’’اب یہ تو مجھے نہیں پتہ کہ حکومت کی طرف سے ان کے لیے کیا حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں جو دیکھا وہ عرض کردیا ۔‘‘اس کا اندازہ عمر کوٹ میں عارف مسیح نامی شخص خاکروب کے مبینہ قتل ہوا ۔گندگی کی وجہ سے گٹر بندہوا جسے کھولنے کا حکم عارف مسیح کوہواجو گٹر میں گیا لیکن زہریلی گیس کی وجہ سے بے ہوش ہوگیا۔
عارف کو ہسپتال میں لایا گیا جہاں انسانیت کا بدنما چہرہ دیکھنے کو ملا ۔خدمت انسانیت پرمعمور ہسپتال کے ڈاکٹرزنے عارف مسیح کو پہلے نہلانے کا حکم دیا کہ میرے کپڑے پاک ہیں اور میں روزے سے ہوں ۔عمرکوٹ تھانے میں ایم ایس ڈاکٹر جام کنبھار، آر ایم اوڈاکٹر یوسف اورڈیوٹی ڈاکٹر اللہ دادراٹھور سمیت تین میونسپل ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا۔سینٹری سپروائزرعارف مسیح کے بھائی پرویز مسیح کے مطابق گندے نالے میں صفائی کی غرض سے اترنے کے بعد بے ہوش ہوگیاتھا جب اسے علاج کی غرض سے ہسپتال لے جایا گیا تو جسم پر لگی گندگی کی وجہ سے ڈاکٹروں نے علاج سے انکار کردیا۔روزے میں ہونے والا ڈاکٹر بھول گیا کہ روزہ کیا مقاصد رکھتاہے ، جسم پر لگی گندگی کو صاف کروانے کے چکروں میں ڈاکٹر کے دل پر لگی گندگی نے عارف مسیح کی جان لے لی۔ہندوڈاکٹر بھی اقلیتی فرد کی مددکرنے سے انکاری ہوگیا ، پتہ نہیں اسے اکثریت پر مان تھا یا پھر لکیرپارسے کوئی حکم مل چکا تھا۔
ڈاکٹری ایک مقدس پیشہ ہے جس میں کئی قابل ہستیاں ہیں جو نسل انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں ۔الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں کچھ دن اپنی والدہ کے ساتھ رہنے کی وجہ سے پیرامیڈیکل سٹاف کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔بلاشبہ ہرجگہ کالی بھیڑیں ہیں جنہیں نکالنا اور کیفر کردار تک پہنچانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ڈاکٹروں کو قسائی جیسے القابات سے یاد کرنااور کسی ایک واقعہ کی بنیادپرڈاکٹربرادری کو برابھلا کہنا یقیناًکوئی قابل تحسین چیز نہیں ہے ۔تنقیدکریں ، تنقید کرنا ہم سب کا بنیادی حق ہے لیکن تنقید کی آڑ میں بے جا اختلاف کو جگہ نہ دیں ۔خدمت کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف بھی کریں تاکہ عارف مسیح جیسا کوئی اور واقعہ نہ ہو ۔عارف مسیح ہمارے معاشرے کا ایک ایساکردار ہے جو ہمارے اردگرد ہمہ وقت موجود ہوتا ہے جس کی کبھی ہم نے کھل کر تعریف نہیں کی ۔عارف مسیح جیسی خدمات سرانجام دینے والے ہماری طرح کے انسان ہی ہیں جنہیں پیداکرنے والا بھی وہی وحدہ لاشریک ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا ۔ہمارے گھروں کا کوڑا کرکٹ سنبھالنے والے یہ لوگ بہترین ہیں ان کی خدمات کا اعتراف کریں کہ یہ ہمارے معاشرے کا اہم ترین حصہ ہیں ۔ہمیں اس طبقاتی وسماجی تقسیم کو پروان چڑھانے والے عناصر کی بیخ کنی کرنی ہوگی کہ یہ بھی دہشت گردی کی ایک قسم ہی ہے اور ہم سب اس دہشت گردی میں کسی نہ کسی طور پر ملوث ہیں۔