اسلام اور اس کیلئے جان کی بازی لگا دینے کا شوق جزبہ شھادت کہا جاتا ہے کہ شہید کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اسکی روح جنت کے حسین مرغزاروں میں پہنچ جاتی ہے اللہ پاک کے انعامات اور انکی آزاد اڑان ہر نعمت تک رسائی کیلئے انہیں سبز پرندوں کی صورت بنا دیا جاتا ہے اللہ کے عرش کے نیچے قندیلوں میں بسیرا کر لیتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ جب ان سے پوچھتے ہیں کہ کچھ چاہیے ؟ تو کہتے ہیں یارب ہمیں ایک بار اور دنیا میں بھیج دے تا کہ تیری راہ میں پھر سے شہید ہوں سبحان اللہ وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں مگر تم ان کا شعور نہیں رکھتے البقرہ انسان کی بہترین اساس اس کی جان اس کا جسم لیکن کیا چیز ہے لذت آشنائی کہ جب رب الرحیم کی ذات کا ادراک مل جاتا ہے تو سوچ کا ارتکاز صرف اللہ کی خوشنودی کا حصول اور اس میں جھاد کا اعلیٰ مقام شھادت کا شوق جانتے ہیں کب پیدا ہوتا ہے؟ جب دل پر پڑے گمراہی کے جہالت کے تاریک پردے اللہ پاک کے اذن سے سرک جاتے ہیں دل نورالہیٰ سے منور ہو کر چمک اٹھتا ہے تب انسان جانتا ہے کہ وہ جو رب ہے وہی سب ہے اس کا جینا مرنا سب اسی کے پاس ہے اس مفاد پرست دنیا اور دھوکہ باز دنیا سے ذہن ہٹ جاتا ہے اب خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کچھ تو ایسا کرکے جائیں کہ پیچھے صدقہ جاریہ بنے گواہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ملے یندہ اپنی حیثیت اور آپکی شان اور اخروی انعامات جان گیا تھا شعور بیدار ہوا تو سوچ کا زاویہ بدلا موت تو ہر قیمت پر طے ہے تو کیوں نہ اللہ کے دین کو اس کے نام کو پھیلاتے ہوئے جان نچھاور کر دوں یہ چنے ہوئے لوگ ہیں جو شعور کی کسوٹی پر سود و زیاں کو پرکھ کر اللہ کی بارگاہ میں جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اب آسمان کو چھونے لگتی ہے انسان اپنی تخلیق اللہ کے ذکر اور فکر کو بلند کرنے کیلئے کی گئی ہے اس عقدے کو وا کر لیتا ہے جس ہستی نے اسکی خاطر زمین و آسمان بنائے سمندر چاند ستارے پہاڑ دریا وسیع و عریض اس دنیا میں کہیں کسی درخت سے گرا کوئی پتا ایسا نہیں جسے وہ ذات نہیں جانتی اس کائنات کی تعمیر کے وقت کسی سے مدد نہیں لی تن تنہا خود ہی آسمان و زمین کو سجا سنوار کر انسان کواس میں طے شدہ مدت تک لا بسایا اس انسان کیلئے اللہ پاک نے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا سب سربسجود ہو گئے لیکن ابلیس نے ناری ہو کر خاکی کو سجدے سے انکار کیا یوں وہ ملعون قرار پایا اسی ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ مجھے قیامت تک مہلت دے میں تیرے بندوں کو بھٹکاؤں گا مگر تیرے بندوں کو نہیں یہ قلیل تعداد وہی ہے جو عباد الرحٰمن ہیں جو حق کی خاطر جان کو ہتھیلی پر رکھ کر شھادت کے خوگر ہیں حق اور باطل کی جنگ آج سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ جنگ پہلی بار 6 ستمبر 1965 میں لڑی گئی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے تمام انبیاء علیھم السلام کی زندگیاں اسی وقت میدان جنگ میں بدل جاتیں جب بستیوں کے بھٹکے ہوئے مغرور امراء کے سامنے وہ کلمہ حق بلند کر دیتے طاقتور ہر انسان کی سوچ ہمیشہ یہی رہی کہ دنیا کی ہر نعمت اسی کیلیۓ ہے ایسے میں نبوت کا دعویٰ اور ان کے بتوں کی تذلیل انہیں آگ بگولہ کر دیتی نتیجہ ہمیشہ ہی حق اور باطل کا معرکہ جاری و ساری رہا اسلام کے آج کئی حصے بخرے ہو گئے پوری دنیا میں اس کو پھیلنا تھا اذن الہیٰ تھا لیکن جہاں جہاں گیا وہاں کی معاشرتی رسوم حلول ہوتی رہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اصل اسلام چاہیے تو تحقیق شدہ اور معیاری تخلیق کاروں کی کی عرق ریزی سے تیار مستند کتابیں پڑہنی ہوں گی یہ کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ اسلام صرف تبلیغ اور وحی کے اعلان سے نہیں پھیلا صحابہ کرام جن کے بدن پر بوجہ غربت ایک چادر ہوتی مگر وقت جھاد یہی سورما دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیتے ابو ھریرہؓ بھوک سے بےہوش ہو جاتے اور لوگوں سے اظہار نہ کرتے لوگ سمجھتے انہیں دورے پڑتے ہیں ستر صحاب صفّہ دن رات بیروزگار اس چھپر تلے بیٹھ کر آپﷺ سے دینی تعلیم حاصل کرتے جو کوئی کچھ دے جاتا صبر شکر سے کھا لیتے لیکن ہماری روحانی بھوک کو مٹانے کی خاطر انہوں نے علم سے کوتاہی نہیں کی یہی وجہ ہے آج ہم مکمل قرآن سے اس آسانی سے مستفید ہو رہے ہیں وہ پہلے طالبعلم تھے جو شریعت اسلام سیکھ رہے تھے انکی تربیت آپﷺ فرما رہے تھے اور رہنمائی اللہ پاک کی طرف سے آ رہی تھی جو انکی کی فرسودہ اور جاہلانہ سوچ کا خاتمہ کر رہی تھی ہر حال میں شکر اور توکل کے انمول اسباق ایسے کہ جیسے ہی کہیں اسلامی پرچم لہرانے کا وقت آیا یہی بھوک و افلاس سے کمزور اجسام کسی طاقتور بگولے کی طرح اٹھتے اور نعرہ تکبیر کی للکار سے صحرا و دریا تھّرا اٹھتے دشمن شکست خوردہ ہو کر ہار مانتا اسلام کا پھیلاؤ مزید بڑھ جاتا اسلام کا پیغام ان کی تلواروں اور لہو سے پھیلا الحمد للہ بصد اصرار ہمارا ہر فوجی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شھادت کے عظیم مرتبے کو حاصل کرنا چاہتا ہے یہ کونسے جزبے ہیں ؟ انسان جب اپنی فانی حیثیت اور اس دنیا میں رہنے کی عارضی مدت کو سمجھ لیتا ہے تو وہ اس عارضی قیامگاہ کی رونقوں سے بیزار ہو جاتا ہے منتہائے نگاہ اب آخرت اور اس کی کامیابی ہے وہ بڑے انعامات والے اور کامیاب سودے کرتا ہے اور جان کو اپنے رب کے نام اور اس کے دین کے پرچم کی سربلندی کیلیۓ پیش کر کے امر ہوجاتا ہے اس کی اولاد اہل خانہ اور دوست احباب اس کی جدائی سے دکھی ضرور ہوتے ہیں مگر وہ اُس شہید کو جانتے ہیں جو ہیرو بن گیا وہ بوڑھے ہو جائیں گے مگر شہید ہمیشہ ہمیشہ اسی صورت میں زندہ رہے گا یادوں میں باتوں میں آزاد ملک کی آزاد فضاؤں میں یہ بات وہ سینہ ٹھوک کر ہر محفل میں کہتے ہیں وطن عزیز میں ہر شعبہ حیات کو دیکھ لیجیۓ اپنی ذات اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی بڑائی کیلئے سب بھاگ رہے ہیں جدو جہد کر رہے ہیں آجائیے اپنے پاک فوج کے جوانوں کی طرف یعنی اپنی مسلح افواج کی جانب خواہ وہ بری ہوں بحری ہوں فضائی ہوں سبحان اللہ جن کا مقصد ملک کی حفاظت اپنے بچے بیویاں یتیم کر جاتے ہیں اور عزائم میں کوئی لرزہ نہیں انہی کے بہتے لہو کی حد بندی سے آج دشمن لاچار ہے اور اہل وطن سکون کی نیند سو رہے ہیں یہ رکھوالے ہیں پاسبان ہیں اسلام کے اس دین نے انہیں سمجھایا میدان جنگ میں جانے کیلئے گھر سے نکلو تو مجاہد میدان جنگ میں دفاع وطن کرتے ہوئے جان دیتے ہو تو شہید دشمن کو خاک چٹوا کر واپس آؤ تو غازی الحمد للہ انعامات کی بہتات ہے ایسے شیر جوانوں کیلئۓجو اللہ کی رضا کیلئے جیتے اور مرتے ہیں اللہ کے ہاں اعلیٰ درجات پاتے ہیں سن 65 کی جنگ کی بات ہے لاہور کا گھیراؤ کرنے کیلئے بزدل دشمن آ رہے تھے آر بی نہر سے کچھ فاصلہ ہی رہ گیا تھا جب تاریخ سُن دیکھ رہی تھی پاکستانی فوج کے وہ جوان جن کے سروں پر سہرے سجانے کی عمر تھی وہ دولھے بن کر نہیں کفن پوش بن کر نمودار ہوئے ٹینکوں کے آگے شیروں نے بم جسموں سے باندھ کر خودکو فضا میں بکھیردیا دشمن کے بھاری ٹینکوں کے فوجیوں سمیت چیتھڑے اڑا گئے لاہور بچ گیا پاکستان جیت گیا سلام ہے ان شہیدوں کی عظمت پر سلام ہے ان بہادر ماؤں پر جن کے یہ شیر تھے وہ 65 کا جزبہ ولولہ دشمن آج بھی ارادہ تو کرے کسی ناپاک عزم کا پاک فوج کا ہر سپاہی اپنی عوام کے مکمل تعاون سے تیار ہے قوم کی سوچ کے لاکھ سیاسی بٹوارے ہو جائیں لیکن بات جب آئے گی مادر وطن کی حرمت کی تو اسکے بیٹے اس کی حرمت کیلئے مرمٹنے کو ہر گھڑی تیار کامران ہیں