سپریم کورٹ نے اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ کی تعمیر میں شامل دو کمپنیوں کے چیف ایگزیکیٹو کے ضبط شدہ پاسپورٹس کی بحالی کے لیے اٹارنی جنرل سے جواب طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی اہلیت کا سوال نہیں لیکن ان کے تقرر کی بنیاد کمزور ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ائرپورٹ کی تعمیر میں ہونے والی کرپشن پر وفاقی حکومت خاموش کیوں رہی۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کنسلٹنٹ نے اگر اپنا کام نہیں کیا تو اس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی گئی نہ ہی عدالت کو بتایا گیا کہ کنسلٹنٹ کے خلاف کارروائی ہونے جارہی ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے پاس کنٹریکٹ منسوخ کرنے کا آپشن تھا مگر اس سے تعمیر میں مزید تاخیر ہوتی جبکہ منصوبے کے مطابق یہ ائرپورٹ دو ہزار پندرہ میں فعال ہونا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر معاملات ٹھیک چلتے تو اب تک ائرپورٹ کی تعمیر مکمل ہوچکی ہوتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظر میں منصوبے میں تاخیر پر کارروائی پراجیکٹ ڈائریکٹر کے خلاف ہونی چاہیے۔ ڈی جی سول ایوی ایشن خالد قریشی کے وکیل افتخار گیلانی نے موقف اختیار کیا کہ اگر ان کے تقرر میں کوئی قانونی سقم ہے تو اس کی سزا ڈی جی کو نہیں دی جاسکتی۔ وہ ایک اہل عہدے دار ہیں جن کے دور میں سول ایوی ایشن کے منافع میں اضافہ ہوا۔ مقدمے کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ امکان ہے کہ کل تک مقدمے کی سماعت مکمل کرلی جائے گی۔