اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوج کو ہیلی کاپٹر فراہم کرنے والی دو کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کی جانب سے دائر ملتی جلتی درخواستوں پر فوجی حکام کو نوٹس جاری کر دیے۔
عسکری حکام نے پچھلے 38 سالوں سے فوج کو بیل اور سکورسکائی ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے والی دو کمپنیوں ایرو ٹرون پرائیویٹ لمیٹڈ اور ایروٹرون ایف زی ای کو چھبیس مئی، 2012 میں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بلیک لسٹ کر دیا تھا۔
رواں سال جنوری میں ایرو ٹرون کے مینجنگ ڈائریکٹر اظہر ولی محمد، ڈائریکٹرز فواد علی اظہر، نوشین اظہر ولی محمد اور فرناز راحیل کو مبینہ طور پر غیر ملکوں کو حساس معلومات دینے پر بلیک لسٹ کر دیا گیا۔
درخواست گزاروں نے اپنی پٹیشنزمیں سیکریٹری برائے وزیر اعظم، کابینہ، دفاع، دفاعی پیدا وار، چیف آف جنرل سٹاف، ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس، جنرل آفسر کمانڈنگ آرمی ایوی ایشن اور فوج کے ڈائریکٹر جنرل برائے پرو کیورمنٹ کو فریق بنایا ہے۔
پیر کو عدالت نے فریقین سے ردعمل مانگتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ آئندہ سماعت کے لیے تاریخ کا تعین رجسٹرار آفس کر ے گا۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے عدالت کو مطلع کیا کہ عسکری حکام نے ان کے موکلوں کو بلیک لسٹ کرنے سے پہلے پچھلے سال دسمبر میں طلب کیا تھا۔
اُس وقت فوجی حکام کو بتا دیا گیا تھا کہ مینجنگ ڈائریکٹر ملک سے باہرہیں لیکن اس کے باوجود چار ڈائریکٹرز کو بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ چوبیس جنوری کو بلیک لسٹ کرنے والے فوجی خط کو غیر قانونی قرار دیں۔
یاد رہے کہ ستمبر، 2012 میں ان ڈائریکٹرز نے دونوں کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرنے والے فوجی حکام کے چھبیس مئی کے ایک خط کو بھی چیلنج کیا تھا۔ تاہم، آئی ایچ سی کے جسٹس نور الحق این قریشی نے گزشتہ سال اٹھائیس نومبر کو ان درخواستو ں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں کمپنیاں معاہدہ ختم کرنے والی پرنسپل بیل/وی ٹی آئی او (ہیلی کاپٹرز) کے خلاف کارروائی کریں ۔
عدالت نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں نے نا تو پرنسپلز کو سماعت میں فریق بنایا اور نا ہی ان کے خلاف کوئی الزامات عائد کیے۔ خیال رہے کہ درخواست گزاروں نے ڈائریکٹر جنرل پروکیورمنٹ کے چھبیس مئی کے خط کو چیلنج کیا تھا۔
اس خط میں درخواست گزاروں کو مطلع کیا گیا تھا کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر وہ آئندہ فوج یا دوسرے دفاعی اداروں سے کوئی کاروباری معاہدہ نہیں کر سکتے ۔ گزشتہ سماعت پر فوجی حکام نے عدالت میں اپنا موقف جمع کراتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ کمپنیوں کے مالکان نے پاکستان میں امریکی دفتر برائے دفاع کے نمائندے کو حساس معلومات فراہم کی تھیں۔