اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کو اسحاق ڈار کے خلاف کارروائی روکنے کا حکم دیتے ہوئے 17 جنوری تک حکم امتناع جاری کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کے تحت 30 دن کی مہلت دیئے بغیر ملزم کو اشتہاری کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟۔
سماعت کے موقع پر اسحاق ڈار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اسحاق ڈار بیرون ملک زیر علاج ہیں، چاہتے ہیں کہ ٹرائل نمائندے کے ذریعے کیا جائے، تاثر یہ دیا جا رہا ہے اسحاق ڈار عدالتی عمل سے بھاگ رہے ہیں، سیکشن 514 کے تحت احتساب عدالت میں شہادتیں دی جا رہی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکشن 540 اے کے تحت ہی ملزم کو استثنیٰ دیا جا سکتا ہے جو اسحاق ڈار پر لاگو نہیں ہوتا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ احتساب عدالت نے ملزم کو اشتہاری قرار دینے کے لیے صرف 10 دن کا وقت کیوں دیا؟ ضابطہ فوجداری کے تحت 30 دن کی مہلت دیئے بغیر اشتہاری کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کے تحت ملزم کے خلاف شہادتیں قلمبند کرانے کا عمل جاری ہے۔ ملزم کو ایسی کوئی بیماری نہیں کہ وہ پاکستان واپس نہ آ سکیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے پاس دو آپشنز ہیں، عدالتی حکم کالعدم اور کارروائی 30 دن میں مکمل کرنے کا کہیں یا احتساب عدالت کی کارروائی روک دیں۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ایسی صورت میں دوسرے آپشن کے ساتھ جانا چاہیں گے۔ اسحاق ڈار نے وارنٹ گرفتاری اور اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
خیال رہے آمدن سے زائد اثاثہ جات یفرنس میں اسحاق ڈار بطور ملزم اب تک 7 مرتبہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ 14 نومبر کو عدم حاضری پر عدالت نے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ 21 نومبر کو مسلسل عدم حاضری پر احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کو مفرور ملزم جبکہ 11 دسمبر کو اشتہاری قرار دے دیا۔