تحریر : راجہ پرویز اقبال اسے کہتے ہیں، بعد از خرابی بسیار اگریہ عمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے پہلے روز والے فیصلے کی بنا پر کر لیا جاتا تو جتنی ذہنی کوفت اور پریشانی پوری قوم کو ہوئی اور جو مذاق دنیا میں بنا اور جو نقصان ہوا وہ تو نہ ہوتا، اور نہ ہی پرویز خٹک کو باغی بننے کی دھمکی دینا پڑتی اب جو زخم پرویز خٹک کے بیان اور صوابی کے بعد برہان انٹر چینج پر مقابلے کی وجہ سے دل و دماغ پر آئے وہ تو نہ آتے، اسی لئے تو کہتے ہیں کہ سیاست میں لچک ہوتی ہے۔
ضد اور ہٹ دھرمی نہیں ہوتی گزشتہ دو روز سے جو محاذ آرائی اور شدید قسم کی کشمکش جاری تھی اس نے نوبت یہاں تک پہنچادی تھی کہ پورا ملک افواہوں کی زد میں تھا، بھارتی فوج کنٹرول لائن پر مسلسل گولہ باری کر کے دنیا کی توجہ مضبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم سے ہٹا رہی تھی، دنیا تو کیا نظر انداز کرتی خود ہمارے میڈیا کے پاس وقت نہیں تھا اور وہ دھرنا اور اسلام آباد بند کرنے کو ہی واحد خبر کے طور پر چلا رہے تھے ، ہم نے ان سطور میں بھی کئی بار گزارش کی کہ مصالحت کا کوئی طریقہ نکالا جائے لیکن سیاسی محاذ آرائی کی گرمی اور درجہ حرارت روز بروز بڑھا یا جاتا رہا۔ دیر آید درست آید کے مصداق پرویز خٹک صوابی سے وہ بارہ سفر شروع کرنا چاہتے ہیں۔
Islamabad High Court
ادھر خود عمران خان اور ان کے تمام رہنما بنی گالا میں مزے سے کارکنوں کی حدت محسوس کر رہے تھے جنہوں نے راتیں کھلے آسمان کے نیچے بھی گزاریں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پاناما کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو یہ تاثر دیا گیا کہ عدالت اب اس معاملے کو خود نمٹائے گی چنانچہ حامد خان کے مطابق عدالت نے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کو دو روز کی مہلت دی اور 3نومبر تک جواب داخل کرانے کے لئے کہا جس کے بعد باقاعدہ سماعت شروع ہوگی، ادھر لاہور ہائی کورٹ کی فل بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی پیروی کی اور حکم دیا کہ نہ تو حکومت اور نہ ہی تحریک انصاف اسلام آباد کو بند کرے گی، ان احکام کے بعد ہی حکومت نے تمام کنٹینرز ہٹانے کا حکم دیا اور عمران خان نے بنی گالا میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے 2نومبر کو یوم تشکر منانے کا اعلان کردیا اور کہا کہ کل (بدھ) دو بجے پریڈ گراؤنڈ میں اجتماع ہوگا اور شکرانہ کا جشن منایا جائے گا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے تحریک انصاف والوں سے کہا کہ وہ اپنی فیملیوں کو بھی لے کر آئیں کہ دس لاکھ افراد کا اجتماع کرنا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین نے اپنی تقریر میں لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا کہ دونوں عدالتوں نے حکم دیا ہے، اب ہم جشن منائیں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پہلے تسلیم نہیں کیا گیااور اس کے خلاف اپیل کا اعلان کیا گیا تھا، پریڈ گراؤنڈ میں اجتماع کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہی ہدائت کی تھی، اب اسی پریڈ گراؤنڈ میں جشن منانے کا اعلان کردیا گیا ہے یہ سب کسی خرابی کے بغیر پہلے بھی ہو سکتا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ابتدائی فیصلہ یہی دیا تھا۔
Imran Khan
انتظامیہ بھی باربار کہہ رہی تھی کہ مخصوص جگہ پر احتجاج کرلیں اب تو عمران خان نے بھی عدالتی احکام کو مانا اور یوں ایک راستہ اپنایا جس سے کشیدہ حالات درست ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے، پاکستان کے شہری مسلسل یہی کہہ رہے تھے کہ تحمل سے سیاسی فیصلے سیاسی طور پر کرلئے جائیں لیکن پارہ روز بروز چڑھتا رہا، اب اس درجہ حرارت کو کم کرنا ہوگا، اور یہ عمران خان سے شروع ہو کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت سب جماعتوں پر واجب ہے کہ سیاست کو دائرہ اخلاق میں رکھیں۔