اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) گرفتار شدگان میں سے رکن پارلیمان محسن داوڑ سمیت کئی کارکنان کو رات گئے رہا کر دیا گیا، تاہم پولیس نے تئیس مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
یہ مظاہرین پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد میں پُر امن احتجاج کر رہے تھے۔ انہیں زیر حراست لینے اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے پر پی ٹی آئی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔
پشتون تحفظ موومٹ (پی ٹی ایم) کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان محسن داؤڑ اور ان کے دیگر مظاہرین کو منگل کے روز اسلام آباد سے اُس وقت گرفتار کیا گیا، جب وہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے تھے۔
محسن داؤڑ کو گزشتہ سال بھی کئی ماہ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے مظاہرین کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑنے جھگڑنے کے لیے اکسایا ہے۔ گزشتہ روز گرفتار کیے جانے والے پی ٹی ایم کے حامیوں کے خلاف بھی اسی طرح کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
جو تئیس مظاہرین ابھی تک قید میں ہیں، ان پر افواج پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی، امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنے اور نفرت انگیز تقاریر کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے ایک ترجمان ضیاء باجوہ کا کہنا تھا، ”تمام تئیس ملزمان کو آج ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔‘‘
پی ٹی ایم سن دو ہزار اٹھارہ سے ملک میں نوجوانوں کی انسانی حقوق کی تحریک بن کر ابھری ہے۔ تنظیم کا الزام ہے کہ فوج قبائلی اور افغان سرحد سے ملحق علاقوں میں مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، جن میں جبری گمشدگیاں اور ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں۔
پی ٹی ایم ایک پرامن تحریک ہے لیکن اس نے پاکستان کی فوج کو متعدد مرتبہ براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور پاکستان میں اس قسم کی تنقید کو ایک ریڈ لائن تصور کیا جاتا ہے۔
اس تنظیم کے سربراہ منظور پشتین کو پیر کے روز پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں پر بھی ملک سے بغاوت، نفرت انگیز تقریر، ریاست کے خلاف اُکسانے اور مجرمانہ سازش جیسے الزامات لگائے گئے ہیں۔ منظور پشتین نے اپنی گرفتاری کے بعد اپنے حامیوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی تھی۔
ان کے وکیل اسد عزیز محسود نے بتایا ہے کہ پشتین کا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے اور جمعرات کو ان کی ضمانت پر رہائی کی کوشش کی جائے گی۔