سینیٹر اور امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق صاحب نے ٩ مارچ کو اسلام آباد میں کشمیر بچائو ریلی،جس نے آپارہ مارکیٹ سے بھارت کے سفارت خانے تک جا کر کشمیریوں سے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا تھا۔اس ریلی کو حکومت نے بھارتی سفارت خانے تک جانے سے روک دیا۔ بھارتی سفارت خانے کے قریب اپنی اختتامی خطاب میں کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ حکومت پاکستان سے مطالبہ کر دیا کہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد میں پاکستان کی شہ رگ ،کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر ایک بین لا قوامی کانفرنس منعقد کرنی چاہیے۔ جہاں تک کشمیر بچائوریلی کا تعلق ہے تو اس میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ عوام کے ہاتھوں میں کشمیر اور جماعت اسلامی کے جھنڈے تھے۔ اس کے علاوہ کارڈ ز اور بینروں پر ”گو بھارت گو ”کے نعروںلکھے ہوئے تھے۔ مقریرین میں جماعت اسلامی کے مقامی اور صوبائی لیڈروں نے کشمیریوں کی بھارت سے آزادی اورپاکستان میں شامل ہونے کے مؤقف کی اپنی تقریریں میں بھر پور تائید کی۔
آزاد کشمیر کی لیڈرشپ نے بھی کشمیریوں کی جدو جہد کو سرایا۔علاقے کی مختلف سماجی،مذہبی، سول سوسائٹی اور لیبر لیڈرز نے بھی کشمیر کی موجودہ ظلم کی داستان اور بھارت کے کشمیر کو ہڑپ کرنے اور خصوصی دفعہ ٣٧٠ اور ٣٥۔ اے ختم کرنے اور فوج کی تعداد کو سوا نو لاکھ تک بڑھانے کی سازش پر تقریریں کیں۔ ساتھ ساتھ کشمیریوں سے کہا گیا” قدم بڑھائو کشمیریوں ، ہم تمھارے ساتھ ہیں”۔ اس وقت ہر کشمیری کے گھر کے سامنے دس بھارتی سفاک فوجی پہرہ دے رہے ہیں۔ تاکہ کشمیری گھروں میں بند رہ کر خوراک اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں۔ اپنے جائز آزادی کے مؤقف سے دست بردار ہو جائیں۔ گیارا دن سے کرفیو لگا ہوا ہے۔ انٹر نیٹ ، عام فون،موبائل فون اور اخبارات بند ہیں۔کشمیریوں کا دنیا سے رابطہ کٹ گیا ہے۔ بلکہ کشمیر میں انتہا پسند بھارتی سفاک فوج نے کربلا جیساسماں پیدا کر دیا ہے۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں پر ظلم اور سفاکیت کی حد کرتے ہوئے، فوج کے ساتھ، جموں میں قائم دہشت گردی کے کیمپ سے دہشت گردی میں تربیت یافتہ آر ایس ایس کے انتہا پسند غنڈے بھی شامل کر دیے ہیں۔ نہ جانے وہ کشمیریوں پر کیا کیا ظلم ڈھا رہے ہیں ۔ یہ تو کرفیو کھلا تو پتہ لگے گا۔ کچھ وقت کے لیے کرفیو کھلا بھی تو ہزاروں کشمیری گھروں سے باہر آ گئے۔گو بھارت گو ،ہم کیا چاہتے آزادی،آزادی کا مقصد کیا لا الہ الا اللہ،کے نعرے لگائے۔
بنگلہ دیش کو قائم کرکے بھارت کی وزیر اعظم نے بیان دیا تھاکہ میں نے قائد اعظم کا دوقومی نظریہ خلج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ مسلمانو ںسے ہندوستان پر ہزار سال حکومت کرنے کا بدلہ بھی لے لیا ہے۔ بنگلہ دیش میں غدار پاکستان مجیب کی بیٹی جو دو قومی نظریہ کے حامی بنگالیوں کے قہر و غضب سے ملک سے باہرہونے کی وجہ سے بچ گئی تھی۔ دو قومی نظریہ کی محافظ اور جنگ میں اپنی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے والی جماعت اسلامی کے لیڈروں کو جعلی جنگی جراہم کے ٹریبییونل کے ذریعے موت کی سزائیںسنائیں۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی لیڈر ایک ایک کرکے مردانہ وار تختہ دار پرچڑھتے رہے۔ مگر اپنے قائد کے دوقومی نظریہ کے مؤقف سے نہیں ہٹے۔اس کا مذید ثبوت بنگلہ دیش میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی میں نکالے جانے والی ریلی میں کئی لاکھ بنگالی مسلمانوں کی شرکت نے ثابت کر دیاہے کہ دو قومی نظریہ زندہ ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے لاکھوں کی تعداد میں کشمیر کے حق میں مظاہرے کیے۔ مسلمان ملکوںکے علاوہ دنیا میں جہاں جہاں بھی کشمیری موجود ہیں کشمیر میں مظالم کے خلاف جلوس جلسے اور ریلیاں نکال کر بھارت پر ثابت کر دیا کہ کشمیریوں کو اکیلا سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کرنا۔ ورنہ پچھتانا پڑھے گا۔
جماعت اسلامی اپنے طور پر کشمیر بارے کوئی قدم اُٹھانے کے لیے عید ا لضحیٰ کے بعد حتمی فیصلہ کرے گی جس میں کئی آپشن بھی شامل ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ساری دنیا کے نمائیدوں کو اسلام آباد میںجمع کر کے بھارت کے پاکستان کو ختم کرنے کے عزاہم سے آگاہ کرے۔ عمرانخان وزیر اعظم پاکستان نے ١٤ اگست کو آزاد کشمیر کی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے دنیا پر واضع کر دیا کہ اگر پاکستان بھارت کے درمیان جنگ چھڑی تو اس کے اثرات، طرف اس علاقہ تک نہیں بلکہ پوری دنیا تک پھیلیں گے۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ اپنی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کروائے۔
بھارت نے ہماری قومی کمزوریوں کی بنیاد پر بنگلہ زبان ،قومیت اورنام نہاد حقوق کے نام پرمشرقی پاکستان میں غدارِوطن مجیب سے مل کر مکتی باہنی بنائی۔ مکتی باہنی نے اردو بولنے والے غیر بنگالیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ الٹا الزام پاکستانی فوج پر لگا دیا۔ بھارت نے بلا آخر اپنی فوج داخل کر کے اپنے پرانے ڈاکٹرائین پر عمل کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو زبان اور قومیت کے نام پربنگلہ دیش بنا دیا۔ دنیا جاتی ہے کہ بانیِ ِپاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے جمہوری طور پر ایک جمع ایک برابر دو کے فارمولے کی طرح، جمہوری طریقے سے انگریزوں کو قائل کیا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑھی قومیں ہندواور مسلمان رہتے ہیں۔ ان کے ر ہن سہن کے طریقے جدا، ان کا تمدن، ثقافت اور معاشرت الگ ہیں۔ ان دونوں قوموں کے ہیرو الگ الگ ہیں۔ جو ایک قوم کا ہیرو ہے وہ دوسری قوم کا ولن ہے۔ یہ دونوں زیادہ دیر تک ا کٹھے نہیں رہ سکتے۔ انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی۔ ہندوئوں کی ہزار سال سے برصغیر میں کہیں بھی مرکزی حکومت بھی نہیں تھی۔
ان کو مسلمانوں کے مقابلے میں حکومت چلانے کاتجربہ نہیں۔ (اس کامظاہرہ موددی حکومت میں ہو رہا ہے۔مسلمانوں نے ایک بڑی ہندو اکثریت کو مطمئن کر کے ہندوستان پر ہزار سال حکومت کی۔ مگر اب ہندو حکمران نے بھارت کی مسلمان اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک جاری رکھا ہواہے جس ان میں بے چینی ہے)۔ لہٰذا برصغیر کو دو آزاد مملکتوں میں تقسیم کر دیا جائے۔انگریز اس دلیل کے سامنے نہ ٹک سکے۔ برصغیر کو دو آزاد مملکتوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ اچھے پڑوسیوں کی طرح دونوں ملک رہتے اور اپنے غریب عوام کا معیار زندگی بڑھاتے، مگر افسوس صد افسوس کے ایسا نہ ہو سکا۔تقسیم کے اعلان کے فارمولے کے تحت، کشمیریوں کی نمائیندہ سیاسی پارٹی جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے پاکستان میں شامل ہونے کی قرارداد پاس کی۔ مگر بھارت نے کشمیر سے بھاگتے ہوئے ہند و مہاراجہ ہری سنگھ کی بھارت کے ساتھ” جعلی الحاق” دستاویز کی بنیا د بنا کر اور انگریز کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تقسیم کے فارمولے کی نفی کرتے ہوئے ،پاکستان کے ساتھ شامل ہونے والی مسلم اکثریت کی حامل ریاست کشمیر پر فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا۔ کشمیر کے سابق فوجیوں نے بھارت کے خلاف جنگ شروع کی۔ جس میں پاکستانی فوج اور قبائلیوں نے ساتھ دیا۔پاکستان کے مجائدین نے سو میل لمبا اور تیس میل چوڑا موجودہ آزاد کشمیر کا علاقہ بھارت سے آزاد کرا لیا۔ گلگت بلتستان کے عوام نے راجہ کے فوجیوں کو بگا کر قبضہ کر لیا۔ پاکستان کے مجائدین سری نگر تک پہنچنے والے تھے کہ بھارت کے وزیر اعظم نہرو نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست جمع کی۔ نہرو نے کہا جنگی حالت ختم ہونے پر کشمیر کے عوام کو حق خوداداریت دیا جائے گا۔
اپنے پرانے دانشور،چانکیہ کوٹلیہ کی چالوں پر عمل کرتے ہوئے بھارتی قیادت اپنے وعدے سے بل لکل مکر گئی۔ اور عوام کے سامنے کہنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ پاکستان کی کمزور اورمعذارتانہ پالیسیوں کی وجہ سے پورے پاکستان کو توڑ کر اکھنڈ بھارت بنانے کی شروعات کر دیں ہیں۔ بھارتی کہتے ہیںکہ قائد اعظم نے پاکستان بنا کر بھارت ماتا کے دو ٹکڑے کر دیے تھے ۔ ان ٹکڑوں کو واپس جوڑ کر اکھنڈ بھارت بنانا ہے۔ خیر بھارت کی درخوست کو مانتے ہوئے اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور ریاست کشمیر کے دونوں طرف اپنے ابزرور تعینات کر دیے جو آج تک موجود ہیں۔کشمیر میں راجہ کے وقت سے یہ قانون موجود تھا کہ کشمیر میں کوئی بھی غیرکشمیری جائداد نہیں خرید سکتا۔ بھارت نے بھی کشمیریوں کو دھوکا دینے کے لیے ریاست کشمیرکو خصوصی درجہ دیتے ہوئے اسے اپنے آئین کا حصہ بنایا تھا۔ بھارت کی انتہا پسند دہشت گردتنظیم آر ایس ایس کے بنیادی رکن نریندر داس موددی جب بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا۔
تین (٣٠٠٠) مسلمانوں کو اپنی ریاستی پولیس سے مروایا تھا۔ اس ظلم اور سفاکیت پر امریکا سمیت دنیا کے کئی دوسرے ملکوں نے موددی کو دہشت گرد مانتے ہوئے اپنے ملکوں میں داخلہ بند کر دیا تھا۔پھربھارت کی انتہا پسند ہند وتنظیم آر ایس ایس کے بنیادی رکن نریندر داس موددی ٢٠١٤ ء کے الیکشن جیت کر بھارت کے وزیر اعظم بن گئے۔ اس دوران بھارت کے مسلمانوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے والوںکو آشیر اباد دیتے رہے۔ متعصب ، انتہا پسند دہشت گرد ہندو مجبورمسلمانوں کو باندھ کر ڈنڈے مارتے ہیں اور جے شری رام کے نعرے لگواتے رہے۔ فریج میں گائے کے گوشت رکھنے کے شک میں مسلمانوں شہید کرتے رہے۔بندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے پر مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو کہا جاتا کہ شدھی ہو جائو نہیں تو پاکستان چلے جانے کی دھمکیاں دیتے ریتے ہیں۔ موددی نے ٢٠١٩ء کے الیکشن پاکستان سے جنگ کر نے ،پاکستان کے مذید ٹکڑے کرنے ، اکھنڈ بھار ت بنانے کے اپنے منشور میں کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے اور اجودھیا میںبابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا انتخابی منشور میں بھارتی عوام سے وعدہ کیا تھا۔ اب اس دعدے کو پورا کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی دفعہ ختم کر دی گئی ہے۔ باقی دعدے پورے کرنا ابھی باقی ہیں. صاحبو! اگر پاکستان نے بھارت کے ان سب واقعات سے آنکھیں چرا کربھارت کو عمل کرنے کی کھلی چھٹی دیے رکھی تو پاکستان ختم ہو جائے گا۔ کیا اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کے مسلمان سقوط ڈھاکا کے بعد سقوط پاکستان کا منظر دیکھنے کے یے تیار ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں!پاکستانیوں ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب یہ کہ چکے ہیں کہ میں بھارت کو وارنیگ دیتا ہوں کہ کسی طور پر بھی پاکستان کے خلاف جارحیت کا مرتکب نہ ہو۔ ورنہ میں بہادر شاہ ظفر کی بزدلی کے بجائے ٹیپو سلطان کی بہادری کی طرح لڑ کر جان دینے کو ترجیج دوں گا۔ ہمارے محترم وزیر اعظم صاحب کی یہ بات سو فی صد صحیح اور جائز ہے۔مگر جس طرح موددی نے اپنی قوم کو پاکستان کے ساتھ جنگ پر تیار کیا ہوا ہے وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ہماری پرانی لیڈر شپ نے بھارت کے ساتھ معذرتانہ رویہ رکھا ہوا تھا۔ بھارت ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی دھمکیاں دیاتا تھا اور ہماری لیڈر شپ آلو پیا کی تجارت کی باتیں کرتی رہتی تھی۔اب عمران خان نے پاکستانی قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے بھارت کو للکارا ہے۔ تو پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو اپنی اپنی سیاست کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کو بچانے کے لیے حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔ ان خصوصی حالات میںپہلے تو نواز شریف اور زرداری صاحبان کو کرپشن کی دولت میں سے کم از کم آدھا آدھا پیسا پاکستان کے غریب عوام کے خزانے میں داخل کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس اعلان کے بعد عمران خان کو بڑے قومی مفادکو سامنے رکھتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی کو روک کر رہائی کا حکم جاری کرنا چاہیے۔
اگر ان دونوں صاحبان نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھیںپاکستان بھارت ممکنہ جنگ چڑھ گئی تو قانون کے مطابق سب کا مال ریاست کا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان صاحب کو بھارت کو کسی مشترکہ دوست کے ذریعے پیغام پہنچانا چاہیے کہ وہ اپنے پاکستان مخالف عزاہم سے رجوع کرے۔ پاکستان کو اپنی ملی سوچ کے مطابق زندہ رہنے کا حق دے۔کشمیر کے متعلق اقوام متحدہ میں اب بھی گیارا قراردایں موجود ہیں، ان پر عمل کرے۔ کشمیری مسلمانوں کو اقوام متحدہ میں دنیا کے سامنے کیے گئے اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے حق خوداداریت کا موقعہ فراہم کرے۔ کشمیری اپنی آزاد رائے سے فیصلہ کریں کہ وہ بھارت کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان ،بھارت کے ساتھ اس ساری کاروائی کو اسلام آباد میں منعقدہ بین لاقوامی کشمیر کانفرنس کے سامنے رکھے تاکہ دنیا، دو ایٹمی طاقتوں کے رویے سے آگاہ ہو جائے۔ بھارت کے نفی کے جواب میں علما ء سے مشورہ کر کے پہلے پاکستانی عوام اجتمائی طور پر اپنے اللہ سے اپنے گنائوں کی معافی مانگی چاہیے۔ پھر علماء سے مشور ہ کرکے ریاستِ پاکستان کا سربراہ ہونے کے ناتے عمران خان صاحب جہاد کا اعلان کر دے۔سارے پاکستان کے عوام عمران خان کے جہاد کے اعلان پر جمع ہوکر بھارت کے خلاف شہادت کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ پھر ان شاء اللہ تاریخ اپنے آپ کو دھرائے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے پرانی سنت کے مطابق ،حق پر قائم رہنے والے پاکستانی مسلمانوں کی مدد کر ے گا۔ پاکستان فتح یاب ہو گا انشاء اللہ۔کشمیر آزاد ہو کرپاکستان کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تکمیل ہو جائے گی۔اللہ بت پرست بھارتی ہنددئوں کو شکست سے دوچار کرے گا۔ کشمیر اور بھارت کے مظلوم مسلمانوں کوبھارت کے سفاک فوجیوں کے ظلم و ستم سے خلاسی ملے گی۔ فتح یاب ہونے پرپوری قوم دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرے۔پھرپاکستان فراخ دلی کامظاہرہ کرتے ہوئے اور اپنے اسلاف کی سنت پر چلتے ہوئے پاکستان کے پڑوس میںبھارت کے ہندوئوں کو سکون و چین سے رہنے کی سہولت فراہم کرے،کہ بہادروں کا یہ ہی شیوہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اپنے وعدے پر اور کون عمل کر سکتا ہے؟۔اللہ اکبر۔