اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلام آباد واقعہ کے مرکزی ملزم سکند ر ملک نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ وہ 90 کی دہائی میں لشکر طیبہ سے منسلک رہا۔ پولیس نے اس کے ابو ظہبی میں رابطوں کی تفتیش بھی شروع کردی ہے۔ سکندر سے متعلق اہم رازوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ پولیس اس بات کی تفتیش کررہی ہے کہ ایک ایسا شخص جو بے روزگار تھا، اس کے پاس اچانک 8 لاکھ روپے کہاں سے آئے اور کس نے دیئے ؟ سکندر ملک کے دبئی میں کس کس سے رابطے تھے؟ سکندر ملک نے کارروائی کے لیے 15 اگست کا دن ہی کیوں چنا؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ کہیں سکندر ملک کسی دشمن ملک کی ایجنسی کا آلہ کار تو نہیں بن گیا تھا۔
اس سلسلے میں پولیس نے ایف آئی اے کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں ۔ وفاقی پولیس نے اسلام آباد واقعہ کے مرکزی ملزم سکندر ملک کے خلاف تفتیش کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق سکندر انتہا پسندانہ رجحانات کا حامل ہے اور اس نے تفتیش کے دوران انکشاف کیا ہے کہ 90 کی دہائی میں وہ لشکر طیبہ سے بھی منسلک رہا ہے اور وہیں سے اسلحہ چلانے کی تربیت بھی حاصل کی، اس دور میں سکندر ملک کی لمبی داڑھی تھی۔ سال 2001 میں لشکر طیبہ کو کالعدم قراردے دیا گیا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق سکندرملک کو جدید اسلحہ کی خریداری میں معاونت دینے والے پسرور اور حافظ آباد سے گرفتار کیے گئے تین افراد کا تعلق بھی جماعت الدعو سے ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم سکندر کااصل نام سکندر حیا ت تھا لیکن دبئی سے ڈی پورٹ ہوا تو د دوبارہ واپس جانے کے لیے محمد سکندر ملک کے نام سے نئی سفری دستاویزات بھی تیار کرائیں۔ اسلام آباد پولیس نے اس ہوٹل کے ڈرائیور محمد امجد کا بیان بھی ریکارڈ کر لیا ہے جہاں سکندر بیوی بچوں سمیت ٹھہرا تھا۔ ڈرائیور نے بیان میں کہا ہے کہ سکندر ملک اپنے بچوں کو اسلام آباد کے مختلف تفریحی مقامات اور مری کی سیر کراتا رہا۔
واقعہ کے روز سکندر نے اسے ہوٹل سے دامن کوہ لے جانے کا کہا مگر بلیو ایریا میں جب ٹریفک پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا تو سکندر ملک نے حکم دیا کہ گاڑی مت روکنا۔ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ سکندر نے اسی وقت ایک گن کی نالی اس کی کمر پر رکھ دی اور پولیس کی طرف فائرنگ بھی کی۔ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ اس کے بعد جب گاڑی کا حادثہ ہو گیا اور سکندر کا پولیس سے مکالمہ جاری تھا تو اس نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔