اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اسلام آباد پولیس کی جواں سالہ لیڈی کانسٹیبل اقراء دختر نذیر احمد کی پراسرار موت کی تحقیقات میں ایس پی ٹریفک عارف شاہ کو معطل کرکے شامل تفتیش کر لیا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق ایس پی عارف شاہ کے تمام ذاتی اسٹاف کو کلوز کردیا گیا ہے، ایس پی عارف شاہ اورپولیس کانسٹیبل کے موبائل اور ان کےمشترکہ جاننے والوں کی تفتیش کی جا رہی ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہےکہ ایس پی عارف شاہ قتل میں ملوث پائےگئے یاخود سوزی کا سبب ہوئے تو گرفتار کیاجائےگا۔ اسلام آباد میں لیڈی کانسٹیبل کی پراسرار موت
پولیس حکام کے مطابق تحقیقات کر رہے ہیں کہ خاتون کانسٹیبل بینک کا کہہ کر ایس پی عارف شاہ کی رہائش گاہ کیوں گئی اور ایس پی کی رہائش گاہ پر ہی کانسٹیبل نے زہر کھایا یا کھلایاگیا، اس پہلوپربھی تحقیقات جاری ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ کانسٹیبل اقراء کے اہلخانہ نے ایس پی عارف شاہ پر کسی شک کے نہ ہونےکا بیان دیا تھا اور ان کے خلاف مقدمے کے اندراج سے بھی انکارکیا تھا۔
پولیس کے مطابق متوفیہ کے والدین کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور وہ مانسہرہ کے رہنے والے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس سے قبل یہ افواہ گردش کرتی رہی کہ اسلام آباد پولیس کی لیڈی کانسٹیبل کی کفن میں لپٹی لاش پولی کلینک لائی گئی جسے لانے والے نے خود کو اسلام آباد پولیس کا ڈی ایس پی ظاہر کیااور ایمرجنسی میں عملے کو بتایاگیاکہ وہ سول سرجن عابد شاہ کے ریفرنس سے آئے ہیں۔اس کو لانے والے نے اپنا نام طاہر نیازی بتایا، عملے کو ابتدائی طورپر بتایا گیاکہ لڑکی اس کی بھتیجی ہے اور اس نے غلطی سے گندم والی زہریلی گولیاں کھا لی ہیں۔
بعدازاں جب ڈاکٹروں نے معائنہ کیا تو وہ جاں بحق ہوچکی تھی جس کے بعد معاملہ پولیس کے نوٹس میں لایاگیا اور پھر یہ خبر پھیلی کہ لاش لیڈی کانسٹیبل اقراء کی ہے۔
یہ بھی پتا چلاکہ وہ دن گیارہ بجے پولیس لائن سے بینک جانےکا کہہ کرنکلی اور پھر شام چار بجے اس کی لاش کی اطلاع ملی، یہ مؤقف بھی سامنے آیا کہ کوئی نامعلوم اس کی لاش کو اسپتال چھوڑ گیا۔
دوسری جانب پولیس کانسٹیبل کو اسپتال لانے والے ایس پی ٹریفک سید عارف حسین شاہ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اقراء میری بیٹی کی طرح تھی، وہ 11بجے بینک کےلیے گئی جہاں سے وہ میرے گھر پر آئی،گھر پر آنے کے کچھ دیر بعد اسے خون کی الٹیاں شروع ہوگئیں۔
عارف حسین نے مزید بتایا کہ میں اپنے ملازم کے ساتھ اسے پولی کلینک لے گیا جہاں اس کاعلاج جاری تھا کہ تقریباً گھنٹے کے بعد اس کی موت واقع ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ پولی کلینک کے ریکارڈ میں میرا نام ہے، اقراء کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی میں نے ہی وصول کیا، تمام شکوک شبہات کلیئر کرنے کے لیے اس کا پوسٹ مارٹم کروایا گیا ہے۔