تحریر : رشید احمد نعیم کیا حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں؟ کیونکہ جب ظلم حد سے بھڑتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ قانون ِ قدرت ہے کہ سیاہ رات کے بعد اُجالا ضرور ہوتا ہے۔ حکومت نے ظلم و بربریت کی داستان رقم کر کے اپنے اقتدار کی بنیادیں خود اپنے ہاتھوں سے کھوکھلی کر لی ہیں۔ قوم کے ٹیکسوں سے پلنے والی پولیس نون لیگ کی” گلو بٹ بن ” گئی۔ خوشامدیوں اور درباری وزراء میں گھرے میاں برادران نے ہلاکو خان اور چنگیز خان کی یاد تازہ کر دی۔
لگتا ہے حکومت ملک میں خانہ جنگی کی فضاء پیدا کر کے خون خرابہ کرنا چا ہتی ہے کہ ”اگر ہم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں” نااہل اور ناعاقبت اندیش وزراء نے غیر دانشمندانہ مشوروں سے پی ٹی آئی کی تحریک میں ایک نئی اور جاندار روح پھونک کر اپنے راستے میں خود ہی کانٹے بچھا لیے ۔ اسے کہتے ہیں نادان دوست سے عقل مند دشمن اچھا۔ شیخ رشید جس کے بارے میں نو ن لیگی کہتے ہیں کہ وہ کونسلر بننے کے بھی اہل نہیں ہیں ان کی” لال حویلی کو” رکاوٹیں کھڑی کر کے عملاً سیل کر دیا ہے جس پر ان کو کہنا پڑا کہ ”بڑا شیر بنا پھرتا ہے ایک لال حویلی سے ڈرتا ہے ” حکومت اس وقت دھرنا فوبیا کا شکار ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہ بد حواسی اور بوکھلاہٹ سے فیصلے کرر ہی ہے۔
عدلیہ کے واضح احکامات کہ رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں کو پس ِ پشت ڈال کر اپنی سابق روایات کے عین مطابق توہین عدالت کا ارتکاب کر ہی ہے۔حکو مت کے ان غیر جمہوری اقدامات سے فضاء انتہائی کشیدہ ہو رہی ہے جس کا سارا نقصان وطن ِ عزیز کو ہو رہا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آج ایسے فیصلے اور اقدامات کرنے والی سیاسی جماعت نون لیگ کل جب اقتدا رکی بجائے اپوزیشن میں ہو گی تو کس منہ سے احتجاجی تحریک چلائے گی؟؟؟ روزنامہ” سرزمین ”لاہور کے فیچر رائٹر اور ممتاز کالم نویس رشید احمد نعیم کا موجودہ سیاسی صورت حال پر بے لاگ تبصرہ صحافت سے وا بستگی کے بعد لکھنا کبھی اتنا مشکل تو نہیں تھا جس قدر آج دقت کا سا منا ہو رہا ہے قلم اور کا غذ پکڑے سو چو ں میں گم ہوںمگر خیا لات ،احساسات اور جذ بات الفاظ کے روپ میں ڈھلنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ذ خیرہ ِالفاظ یوں کم دکھا ئی دے رہا ہے کہ شا یدلکھنے لکھا نے سے کبھی وا سطہ ہی نہ پڑا ہو اپنی اس کیفیت پر خو د ہی شرمندگی کا احساس ہو رہا ہے سکتے کا شکار ہوںکہ وہ کون سی خبر ہے جس نے سوچنے کی صلا حیت سے مفلوج کر دیا ہے لکھنا چا ہوں بھی تو لکھ نہیں پا رہاہوں صرف سو چوں کے دا ئرے میں گھر چکا ہوں کہ حکومت کس روش پہ جا رہی ہے ؟ اپنی ہی نہتی عوام پر وحشیانہ تشدد کرکے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔
PTI
کیا حکومت ِ وقت پررانا ثنااللہ ،خواجہ سعد رفیق،پرویز رشید ،خواجہ آصف ،طلال چوہدری ،دانیال عزیز ،زعیم قادری،عابد شیر علی اور خواجہ آصف جیسے درباریوں اور خوش آمدیوں کا رنگ غالب آ گیا ہے ؟؟؟یا میاں صاحبان نے ”سیاسی شہید” ہونے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے ؟؟؟ کیونکہ تجزیہ نگاروں کی طرف سے یہ بات کافی دن پہلے منظر عام پر آ گئی تھی کہ حکومت ” سیاسی شہادت” کی تیاریوں میں مصروف ہے جس کا آج عملی مظاہرہ اس وقت کیاگیا جب اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ” یوتھ کنونشن” منعقد ہو رہا تھا ۔ چشم ِ فلک نے وہ مناظر دیکھے جو عام طور پر امریت میں دیکھے جاتے ہیں یا آج کل مقبوضہ کشمیر میں نظر آ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کا یوتھ کنونشن جاری تھا کہ اس دوران پولیس اور ایف سی نے کنونشن پر دھاوا بول دیا اور لاٹھی چارج کرتے ہوئے کئی کارکنان کو گرفتار کرلیا، پولیس اور ایف سی کے دھاوے پر تحریک انصاف کے کارکنان اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں اور اس دوران پولیس اور ایف سی نے تحریک انصاف کی خواتین کارکنان سے بھی بدتمیزی کی، کارکنان نے گرفتاریوں پر شدید مزاحمت کی جس پر سیکیورٹی اہلکار کارکنان کو ڈنڈوں سے مارتے ہوئے اٹھاکر لے گئے اور گاڑیوں میں ڈال دیا۔
کنونشن پر پولیس کے دھاوے کے خلاف تحریک انصاف کے وائس چیرمین شاہ محمود قریشی نے شدید مزاحمت کی اور گرفتاریوں کی شدید مذمت بھی کی۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پولیس نے ہمارے یوتھ کنونشن پر لاٹھی چارج کیا، ہمارے کارکنان کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا تک نہیں تھا، مسلم لیگ (ن) کی جمہوریت سب دیکھ لیں، یہ صرف نوازشریف کی بادشاہت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کس قانون کے تحت خواتین سے بدتمیزی کی گئی؟؟؟، کسی نے ہمارے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا یا پتھر دیکھا؟؟؟، آئی جی اور کمشنر اسلام آباد بتائیں یہ کس کے حکم پر کیا جارہا ہےَ؟؟؟۔تحریک انصاف کے راہنما فیصل واوڈا نے میڈیاسے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یوتھ کنونشن کی اجازت مل گئی تھی، اب حکومت اسلام آباد میں دفعہ 144 لگائے یا 244، ہم اپنا احتجاج ضرور کریں گے۔
PTI
انہوں نے کہا کہ پولیس نے ہمارے پر امن کارکنان پر ڈنڈے برسائے، احتجاج ہمارا حق ہے اور اس سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا، پولیس عورتوں کو چانٹے ماررہی ہے یہ کس قانون کے تحت ہورہا ہے؟؟؟۔دوسری جانب اسلام آباد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے یوتھ کنونشن کی اجازت نہیں لی تھی اور کنونشن کی منسوخ پر دوپہر کو ہوٹل بند کردیا تھا۔ چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں نوجوانوں پر لاٹھی چارج اور تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کا عمل صرف خوفزدہ ہونے کی علامت ہے جب کہ حکومتی ارکان کو برداشت سے کام لینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی جمہوری عمل روکنے کی سختی سے مذمت کرتی ہے جب کہ پولیس کا کام امن قائم کرنا ہے نہ کہ سیاسی پروگرام خراب کرنا اور حکومتی ارکان کو برداشت سے کام لینا ہوگا طاہر القادری کا کہنا تھا کہ اس ملک میں آمریت چل رہی ہے۔
اگر حکومت بھوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہے تو ہال کے اندر ہونے والے کنونشن پر لاٹھی چارج کا کوئی جواز نہیں تھا۔حکومت کو چاہیے کہ وہ بادشاہت کا اعلان کردیں،اگر کنونشن میں کوئی پتھراؤ اور توڑ پھوڑ نہیں کر رہا تو ان پر لاٹھی چارج کاکوئی جواز نہیں بنتا تھا۔حکومت کا طرز عمل قابل مذمت اور افسوس ناک ہے، اس وقت ملک کے ادارے خاموش کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میری پوری حمایت پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، ہم نے کل سی ای سی کا اجلاس بلایا ہے جس میں پی ٹی آئی کے وفد سے ملاقات کے بعددھرنے میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا اعلان کروں گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ملک میں بدترین آمریت دیکھی ہے،ماڈل ٹاون میں لوگوں کو سیدھی گولیاں مار کر شہید کیا گیااور جو بچ گئے وہ ابھی تک زیر علاج ہیں۔
۔چیرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ آج کے واقعہ پر کارکنان بہت غصے میں ہیں، کل ہم پورے پاکستان میں احتجاج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ شریف برادران کی سوچ آمرانہ ہے انہیں سالوں سے جانتا ہوں، مجھے لگ رہا تھا کہ شریف برادران کچھ کریں گے کیونکہ انہیں جمہوریت کی اے بی سی کا بھی نہیں پتا، آج کے واقعہ پر بڑا رد عمل آئے گا اور ہمارے رد عمل سے نقصان حکومت کا ہی ہوگا۔عمران خان نے کہا کہ اگر ایسا ہی کام 2 نومبر کو ہوا تو بہت بڑا رد عمل آئے گا جسے حکومت برداشت نہیں کرسکے گی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک زندہ ہوں احتجاج کرتا رہوں گا، پولیس مجھے جیل میں ڈالے گی تو کتنی دیر رکھے گی، جیل سے رہا ہوکر پھر احتجاج کروں گا اور جب تک زندہ ہوں گا احتجاج کرتا رہوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ چوری کیا ہوا پیسہ کھانے والا وزیراعظم ڈرا ہوا ہے، نوازشریف کے چہرے پر کتنی گھبراہٹ ہے سب دیکھ رہے ہیں۔دوسری جانب بنی گالا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہمارے کارکنان کون سا ایسا کام کررہے تھے جس سے جمہوریت کو نقصان پہنچ رہا تھا؟؟؟، ہماری خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے اس پر بہت دکھ ہوا، حکمران خود کو صدام حسین اور حسنی مبارک سمجھتے ہیں، حکمرانوں کو کوئی شرم نہیں آتی یہ صرف اپنا پیسہ بچانے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔
PTI
انہوں نے کہا کہ آج کے واقعہ پر کل ملک بھر میں پر امن احتجاج کریں گے جب کہ کارکنان 2 نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کی تیاری کریں، ہم 10 لاکھ کی توقع کررہے تھے، آج کے واقعہ کے بعد اب کارکنان کو غصہ ہے، اب 10 لاکھ سے زیادہ لوگ آئیں گے، 2 نومبر کو نکلنا اس ملک کو بچانے کے لیے بہت ضروری ہے۔عمران خان نے کہا کہ حکمرانوں کے ساتھ کرپشن کرنے والا پورا ٹولہ ہے، ہم ان کی دھاندلی کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں جمہوریت خطرے میں ہے اور کرپشن کی بات کریں تو” سی پیک ”کو خطرے میں ڈالنے کا کہتے ہیں، یہ لوگ دھاندلی اور کرپشن پر” سی پیک ”کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ نے صبح اجازت دی تھی اور حکومت کو کنٹینر نہ رکھنے کا حکم دیا تھا، اب جج صاحبان بتائیں کہ انہوں نے کیا کیا؟؟؟ وہ خود تماشہ دیکھ لیں، ہم نے کون سا قانون توڑا تھا؟؟؟۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پچھلی بار دھرنا دیا تو مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی جمہوریت بچانے کی باتیں کررہے تھے اب وہ بتائیں یہ کون سی جمہوریت ہے؟؟؟، ساری دنیا میں احتجاج ہوتا ہے لیکن ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا، اب ہم کل احتجاج کے بعد دیکھیں گے کہ یہ کیا کرتے ہیں؟؟؟، ہمیں خبریں مل رہی ہیں کہ یہ پکڑ دھکڑ میں لگے ہیں۔چیرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ آج کے بعد اب تحریک اور رنگ پکڑ جائے گی، کل لال حویلی جلسے میں جارہا ہوں اگر حکومت نے مجھے گرفتار کرنا ہے تو کرلے میں تیار ہوں۔
حکومت نے جو راستہ پکڑا ہے وہ اپنے لیے مشکل کھڑی کررہی ہے کیونکہ تحریک انصاف اب وہ جماعت نہیں، پچھلے دھرنے نے ہمیں بہت ٹریننگ دی ہے، ہمارا کوئی کارکن نہیں ڈرا، ہمارے کارکنان میں غصہ اور جذبہ بڑھ گیا ہے۔اس واقعہ پر سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کے دست ِ راست اور موجودہ حکومت کے حق میںقصیدہ گوئی کے ریکارڈ قا ئم کرنے والے دانیال عزیز نے کہا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ضرور ہو گی۔دانیال صاحب ! کیا آپ یہ بات بتانا پسند فرمائیں گے کہ جب نون لیگ نے اسلام آباد پر” لاونگ مارچ ”کے نام پر لاہور سے ”چڑھائی” کی تھی تو کیا” وہ عمرے کی ادئیگی” کے لیے نکلے تھے ؟؟؟ کیا وہ قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے مترادف نہیں تھا ؟؟؟ جب ماڈل ٹائون لاہور میں قتل عام ہوا تو کیا و ہ قانونی تقاضوں کے عین مطابق تھا؟؟؟ Saad Rafique Uses Very Cheap And Street Language Against Imran Khanتیڑھی میڑھی شکل بنا کر دوسروں کی نکلیں اتارنے میں مہارت رکھنے والے خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کے خلاف جو زبان استعما ل کی وہ کسی مہذب انسان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ نہیں لگتے ۔ جو شخص ایک” سٹے آرڈر” کے پیچھے چھپا ہو اور دوسرں کو قانون سکھائے یا دوسروں کے بارے میں بدکلامی کرے اس کا تعلق یقینانون لیگ سے ہی ہو سکتا ہے۔
PTI
خواجہ صاحب یہ بتانا گوارہ کریں گے کہ آخر ان کو احتساب سے اتنی چڑ کیو ں ہے ؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ نواز شریف اس واقعہ کی روشنی میں اپنا دوسرا لفافہ تیار کر چکے ہیں جس کا راقم الحروف کچھ عرصہ قبل ذکر کر چکا ہے کہ کسی ملک کے وزیراعظم پر یہ وقت آگیا کہ ساری عوام اس کے خلاف ہو گئی اور اس کو یہ احساس ہو گیا کہ اب اس کا مزید اقتدار میںرہنا ناممکن ہے کیونکہ اس کو حالات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کی بادشاہت کا سورج غروب ہو جائے گااور مخالف پارٹی کا سربراہ اگلے الیکشن میں وزیراعظم ہو گا۔اس نے دو لفافے تیار کئے اور مخالف پارٹی کے سربراہ کو یہ کہہ کر دے دیے کہ ”مجھے معلوم ہے کہ اب تم ہی وزیراعظم بنو گے لہذا یہ لفافے اپنے پاس رکھ لو اور کبھی بُرا وقت آئے توپہلا اور دوبارہ آ ئے تو دوسرا لفافہ کھول لینا”۔وقت گزرتا گیا ۔مخالف پارٹی کاسربراہ وزیراعظم بن گیا اور حکومت چلانے لگا ۔آخر کار اس پر بھی بُرا وقت آگیا سب اس کے مخالف ہو گئے تو اس کو سابق وزیراعظم کی بات یاد آئی کہ جب بُرا وقت آئے تو پہلا لفافہ کھول لینا ۔اس نے پہلا لفافہ کھولا لکھا تھا ” سب کچھ مُجھ پر یعنی سابق وزیراعظم پر ڈال دو” اس نے ایسا ہی کیا۔اور کامیاب رہا تین چار سال مزید گزر گئے۔
ایک مر تبہ پھر بُرا وقت آگیا اور وزیراعظم سیاسی بحران میں گھر گیا تو اس نے سابق وزیراعظم کی بات کو سامنے رکھتے ہوئے دوسرا لفافہ کھولا اس میں لکھا ہوا تھا ” اب تم بھی دو لفافے تیار کر لو” میا ں نوازشریف صاحب ! کیا اب آپ نے بھی دو لفافے تیار کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ اب آپ کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہونے والا ہے ۔ آپ اپنا پہلا لفافہ عمران خان ا ور طاہرالقادری کے دھرنوں کے موقع پر کھول چکے ہیں یااپنے غیر سنجیدہ اور خوشامدی وزراء کی چکنی چپٹی باتوں میں آکر سابق روایات کے عین مطابق اس وقت تک اقتدارسے چمٹے رہیں گے جب تک آپ کو طاقت کے زور پر اقتدار سے الگ نہ کر دیا گیا کیونکہ اس وقت اتنے اہم معاملے پر بھی وزیراطلاعات پرویز رشید انتہائی غیرذمہ درانہ گفتگو کر رہے ہیں۔پاناما لیکس کے ہوشربا انکشافات پر عمران خان سمیت دیگر قومی راہنماوںکی طرف سے تحقیقات کے مطالبہ پر پرویزرشید اور دیگر وزراء کا ردعمل دیکھ کر ان کی غیر سنجیدگی پرماتم کرنے کو دل کرتا ہے کہ پاکستان کی قسمت میں کیا لکھا ہے ؟؟؟ کیسے کیسے ”رنگیلوں” کو وزراء کے کلیدی عہدوں پربٹھا دیا جاتا ہے؟؟؟جن کو ہر بات میں سازش نظر آتی ہے۔
انتخابات میں دھاندلی کامعاملہ ہو یا ماڈل ٹائون میں دن دیہاڑے ہونے والے قتلِ عام کی تحقیقات کا مطالبہ ہو ۔ انہیں صرف جمہوریت کے خلاف سازش نظرآتی ہے۔پاناما لیکس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ ان چند وزراء کی سوئی اسی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ یہ سب جمہوریت کے خلاف سازش ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ کون سی جمہوریت؟؟؟کیسی جمہوریت؟؟؟وہ جمہوریت جس میںایک میٹرریڈر چند سالوں میں اپوزیشن لیڈر تک کا سفر طے کر لے؟؟؟وہ جمہوریت جس میں محمود اچکزئی کا پورا خاندان حکومتی عہدوں اور پرکشش مراعات سے لطف اندوز ہو رہا ہو ؟؟؟وہ جمہوریت جس میں مولانا فضل الرحمان سدابہار چیرمین کشمیر کمیٹی کی کرسی کے مزئے جھولتے ہیں ؟؟؟وہ جمہوریت جس میں الطاف حسین ”را ” سے مالی ،ا خلاقی اور دفاعی مدد مانگ کربھی محب وطن کہلائے؟؟؟وہ جمہوریت جس میں نیب زدہ سیاست دان وزراء اعظم ،وزرا ء اعلیٰ اور وزرا ء قلیدی ریاستی عہدوں پر فائزہو جاتے ہیں ؟؟؟وہ جمہوریت جس میں کروڑوں کی کرپشن کو برا نہ سمجھا جائے ؟؟؟وہ جمہوریت جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روز گاری سے تنگ آ کر جرائم کی دنیا میں داخل ہو کر مجرم کہلاتے ہیں۔
Balwal Bhatto
جب کہ پیسے اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر آپ کے سیاستدان بھائی جعلی ڈگری کے سہارئے رکن اسمبلی بن کر مراعات کے مزئے لوٹتے ہیں ؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں ہر طرف رشوت کا بازار گرم ہو؟؟؟قتل و غارت روزکامعمول بن چکا ہو؟؟؟لا قانونیت کا رقص جاری ہو؟؟؟چادراور چار دیواری کا تحفظ خواب بن گیا ہو ؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں پانچ سو روپے چوری کرنے والاپابندسلاسل اور کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث اقتدار کے جھولے جھولنے میں مصروف ہو ؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اقرا پروری کے فروغ پر فخر محسوس کیا جارہا ہو؟؟؟وہ جمہوریت جس میں وطن عزیزکے شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں اور ارکان اسمبلی ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات کی مد میںوصول کر رہے ہوں؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں عوام مہنگائی ،بے روزگاری اور تنگدستی کی چکی میں پس رہی ہو؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں عوامی نمایندے منتخب ہونے کے بعد اگلے انتخابات تک چہرہ دکھانے میںہتک محسوس کرتے ہوں ؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں کمیشن مافیا،قبضہ مافیا اور بھتہ مافیاکا راج ہو؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں سیاست دان اور حکومتی ارکان قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں ؟؟؟اگر اسی کا نام جمہوریت ہے توخدا کے لیے ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چا ہیے۔خدا ایسی جمہوریت سے محفوظ رکھے جس جمہوریت میں جمہوریت کی بھیانک چھتری تلے غنڈے،بد معاش،چور ،رہزن، اور لٹیرے پرورش پائیں اور عوام کا خون پئیں۔
ہمیں ایسی جمہوریت سے دور رکھیں جو قبضہ گروپوں کے لیے تقویت کا باعث بنے۔ہم پناہ مانگتے ہیں ایسی جمہوریت سے جس میںسعد رفیق ، رانا ثنا اللہ۔ پرویز رشید ، خواجہ آصف،عابد شیرعلی،زعیم قادری ،دانیال عزیزجیسے کھلنڈرے ،عقل سے پیدل اور زمینی حقائق سے نا آشناء وزراء بن جائیں۔ہمیں ایسی جمہوریت سے محروم ہی رہنے دیں جس میں جب آپ کی بدعنوانیوں سے پردہ چاک ہونے لگے تو جمہویت کا راگ الاپنے لگتے ہیں آپ اس جمہوریت کی بات کرتے ہیں جس میںآپ جیسا حکمران ٹولہ جمہوریت کے نام پر بیس کروڑ ںعوام کو دن رات لوٹنے میں مصروف ہے اور پھر اسی لوٹ مار پر اکتفا نہیں کر رہے ہیں بلکہ لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ملک منتقل کرنے پر آپ کو ذرا بھرشرمندگی کا احساس نہیں ہوتا وزیراعظم جناب میاں نواز شریف اور وفاقی وزرا ء نے پاناما لیکس کو جمہوریت کے خلاف سازش قراردیتے ہوے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ یہ سب پاکستان کی خو شحالی اور ترقی کے ان مخالفین کی ملک کے خلاف گہری سازش ہے جو موجودہ حکومت کی طرف سے وطن عزیز میں لائی خوش حالی اور ترقی کے مخالف ہیںسوال یہ ہے کہ کون سی خوشحالی اور ترقی آگئی ہے ؟؟؟ذراعوام کو بھی بتایا جائے ۔کیا ملک میں بے روزگاری ختم ہو گئی ہے ؟؟؟کیا مہنگائی دم توڑگئی ہے؟؟؟کیا دہشت گردی اپنی موت آپ مر گئی ہے؟؟؟کیا اقربا پروری اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے؟؟؟کیا رشوت کا گرم بازار ٹھنڈا ہو گیا ہے؟؟؟کیا امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے؟؟؟کیا لوڈشیڈنگ کا جن بوتل میں بند ہو چکا ہے؟؟؟کیا انصاف اور میرٹ کا قتل عام کرنے والوں کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔
کیا امدادی پیکج کے نام پر کسانوں کو دی گئی خیرات سے ان کی ٹوٹی ہوئی کمر سیدھی ہو گئی ہے؟؟؟کیا سرمایہ داروں نے غریب کا معاشی قتلِ عام بند کر دیا ہے؟؟؟کیا وزیروں، مشیروں،ارکان اسمبلی اور حکومتی چہیتوں کے” اللو ں تللوں ”پر قومی وسائل کا بے دریغ استعمال روک دیا گیا ہے؟؟؟کیا تھانہ کلچر تبدیل ہو گیا ہے؟؟؟کیا پولیس کی آمرانہ سوچ میں کوئی کمی آ گئی ہے؟؟؟کیا ترقیاتی کاموں میں” کمیشن مافیا ”ابدی نیند سو گیا ہے؟؟؟کیا بھتہ خور قانونی شکنجے میںآگئے ہیں ؟؟؟کیا سٹریٹ کرائم کی شرح صفر ہو گئی ہے؟؟؟کیا عوامی نمائندو ں اور غریب عوام کے درمیان رابطے کے فقدان کا پہاڑ زمین بوس ہو گیا ہے؟؟؟اگر جواب ہاںمیں ہے تو کسی ایک چیز کی نشاندہی کر دیں جو تبدیل ہوئی ہے اور اگر جواب نفی میں ہے تو خدا کے لیے عوام کو بے و قوف بنانے کا سلسلہ بند کر دیں کیونکہ خو شحالی آئی ہے یقینا آئی ہے مگر جو خوشالی آئی ہے عوام کے لیے نہیں وہ رسہ گیروں ،سرمایہ داروں ،ذخیرہ اندوزوں،ڈاکوئوں،چوروں،بدمعاشوں،راہزنوں،قانون شکنوںاور لٹیروںکے لیے آئی ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیںامن و امان کی صورت حال یہ ہے کہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میںمعمار ان قوم کو پرسکون اور محفوظ ماحول کی فراہمی آ پ سے ممکن نہیں ہو پا رہی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر مصنوعی ٹیکسوں کے ذریعے عوام کی جیبوںپر ڈاکہ زنی کا ارتکاب کرتے ہوئے لوٹ مار کا قانونی بازار گرم کر رکھا ہے مہنگائی اور بے روز گاری اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق چند ماہ قبل سپریم کورٹ میں نائب قاصد کی ملازمت کے حصول کے لیے جو درخواستیں جمع ہوئی ہیں ان میں بی ۔اے اور ایم اے پاس امیدواروں کی بھاری تعداد ہے بجلی کے بل ادا کرنے کی بجائے لوگ خود کشی کرنے کر ترجیح دے رہے ہیں کیے ۔ اساتذہ جیسا مقدس اور قابل احترام طبقہ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہے۔ غربت کی چکی میں پسی ہوئی عوام کے لیے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہو چکا ہے لاقانونیت انتہا کو پہنچ چکی ہے رشوت کے بغیر کسی مسلئے کا حل دیوانے کے خواب کے مترادف ہے عوام کی آنکھیں ترقیاتی کاموں کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں مگر عوامی نمائندے یوں غیب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔معلوم نہیں کہ آپ خود فریبی کا شکار ہیںیاڈرامہ بازی کر کے عوام کو بے و قوف بنا رہے ہیں۔
حضرت عمر فاروق نے فرمایا،،اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک ِِکہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی سے مر گیا تو اس کا ذمہ دا ر عمر ہو گا”۔ مگر ان سیاستدانوں کو دیکھ کر تو سمجھ نہیں آتی کہ ان کو کس طرح یاد کیا جائے ؟؟؟ اان’ قائدین” کو راہبر کہوں یا راہزن ؟؟؟ کس نام سے یاد کروں؟؟؟میں ان کو قوم کے غم خوار کہوں یا ڈاکو اور لٹیرے؟؟؟ عوامی خدمت کے ان دعویداروں کو خون خوار درندے سمجھوں یا شب خون مارنے والے بھیڑیے ؟؟؟ مگر یہ تو درندوں ، حیوانوں اور بھیڑیوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ حیوان بھی اپنی نسل پر اتنا ظلم نہیں کرتے، جتنی ظلم و بربریت ،لوٹ ماراور حقوق سلبی کی داستانیں یہ لوگ رقم کر رہے ہیں آج ان سیاستدانوں کی لوٹ مار کی جو مبینہ کہانیاں سن کر ہر محب وطن شہری پر یشانی سے دوچارہے کہ ہمیں کس قسم کے رہنماوں سے واسطہ پڑا ہوا ہے جن کو جب اور جس طرح موقع ملتا ہے قومی خزانے کو اپنے آباو اجداد کی جاگیر سمجھ کر لوٹتے ہوے دولت بیرون ملک منتقل کرنے پر ذرا بھر شرمندگی محسوس نہیں کرتے اور وطن عزیز سے سرمایہ منتقل کر کے اپنی جائیدادیں اور کاروبار کو وسعت دینے میں مصروف رہتے ہیں ام سے مر گیا تو عمر اس کا ذمہ ار ہو گا۔
Imran Khan
ان سیاستدانوں کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتی کہ ان کو کس طرح یاد کیا جائے ؟؟َ ان’ قائدین” کو راہبر کہوں یا راہزن ؟؟؟ کس نام سے یاد کروں؟؟؟میں ان کو قوم کے غم خوار کہوں یا ڈاکو اور لٹیرے؟؟؟ عوامی خدمت کے ان دعویداروں کو خون خوار درندے سمجھوں یا شب خون مارنے والے بھیڑیے ؟؟؟ مگر یہ تو درندوں ، حیوانوں اور بھیڑیوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ حیوان بھی اپنی نسل پر اتنا ظلم نہیں کرتے ، جتنی ظلم و بربریت ،لوٹ ماراور حقوق سلبی کی داستانیں یہ لوگ رقم کر رہے ہیں آج سیاستدانوں کی لوٹ مار کی جو مبینہ کہانیاں سامنے سن کر ہر محب وطن شہری پر یشانی سے دوچارہے کہ ہمیں کس قسم کے رہنماوں سے واسطہ پڑا ہوا ہے جن کو جب اور جس طرح موقع ملتا ہے قومی خزانے کو اپنے آباو اجداد کی جاگیر سمجھ کر لوٹتے ہوے دولت بیرون ملک منتقل کرنے پر ذرا بھر شرمندگی محسوس نہیں کرتے اور وطن عزیز سے سرمایہ منتقل کر کے اپنی جائیدادیں اور کاروبار کو وسعت دینے میں مصروف رہتے ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ کہیںقانون کے رکھوالوں کے ہاتھوںماوارے عدالت قتل عام ہو رہا ہے تو کہیںآپ کی بے حسی اور لا پرواہی کی وجہ سے شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑہ رہے ہیں حالت یہ ہے کہ گھر سے نکلنے کے بعد کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ خیریت سے گھر پہنچ پائے گا یا نہیں ان حالات میں آپ کس خوشحالی کی بات کرتے ہیں ؟؟؟کس خوشحالی کا ذکر کرتے ہییں ؟؟؟کہاں ہے وہ خوشحالی ؟؟؟کہاںہے وہ ترقی جس کا آپ راگ الاپتے ہیں ؟؟؟خدا ر ا بند کریںیہ فریب زدہ بیانات اور غلط بیانی ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ اب کی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیںکیو نکہ جب ظلم حد سے بھڑتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ قانون ِ قدرت ہے کہ سیاہ رات کے بعد اُجالا ضرور ہوتا ہے۔حکومت نے ظلم و بربریت کی داستان رقم کر کے اپنے اقتدار کی بنیادیں خود اپنے ہاتھوں سے کھوکھلی کر لی ہیں۔قوم کے ٹیکسوں سے پلنے والی پولیس نون لیگ کی” گلو بٹ بن ” گئی۔خوشامدیوں اور درباری وزراء میں گھرے میاں برادران نے ہلاکو خان اور چنگیز خان کی یا د تازہ کر دی۔لگتا ہے حکو مت ملک میں خانہ جنگی کی فضاء پیدا کر کے خون خرابہ کرنا چا ہتی ہے کہ ”اگر ہم نہیںتو پھر کوئی بھی نہیں” نااہل اور ناعاقبت اندیش وزراء نے غیر دانشمندانہ مشوروںسے پی ٹی آئی کی تحریک میں ایک نئی اور جاندار روح پھونک کر اپنے راستے میں خود ہی کانٹے بچھا لیے ہیں ۔ اسے کہتے ہیں” نادان دوست سے عقل مند دشمن اچھا ”۔ شیخ رشید جس کے بارے میں نو ن لیگی کہتے ہیں کہ وہ کونسلر بننے کے بھی اہل نہیں ہیں ان کی” لال حویلی کو” رکاوٹیں کھڑی کر کے عملاً سیل کر دیا ہے جس پر ان کو کہنا پڑا کہ ”بڑا شیر بنا پھرتا ہے ایک لال حویلی سے ڈرتا ہے۔
حکومت اس وقت دھرنا فوبیا کا شکار ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہ بد حواسی اور بوکھلاہٹ سے فیصلے کرر ہی ہے۔عدلیہ کے واضح احکامات کہ رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں کو پس ِ پشت ڈال کر اپنی سابق روایات کے عین مطابق توہین عدالت کا ارتکاب کر ہی ہے۔حکو مت کے ان غیر جمہوری اقدامات سے فضاء انتہائی کشیدہ ہو رہی ہے جس کا سارا نقصان وطن ِ عزیز کو ہو رہا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آج ایسے فیصلے اور اقدامات کرنے والی سیاسی جماعت نون لیگ کل جب اقتدا رکی بجائے اپوزیشن میں ہو گی تو کس منہ سے احتجاجی تحریک چلائے گی؟؟؟ حکومت کو چاہیے کہ موجودہ صورت حال ِ کا ادراک کرے۔ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے یا عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی بجائے ملک و ملت اور وطن عزیز کی خوشحالی و ترقی کے لیے یکسوئی و ایمانداری سے کام کرے اور پاناما لیکس کی آزادانہ و غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونے دے ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
Rasheed Ahmad Naeem
تحریر : رشید احمد نعیم صدر الیکٹرونک میڈیا حبیب آباد پتوکی 0301.4033622 35103-04046892-7 rasheed03014033622@gmail.com