اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے ملاکنڈ کی فوجی جیل سے لاپتہ ہونے والے 35 قیدیوں کے کیس کی سماعت کے دوران تمام صوبائی قانونی افسروں کوکہا ہے کہ وہ عدالت کی جانب سے تیار کیے گئے سوالات کے سیٹ پر اپنا مؤقف پیش کریں۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران بنچ کی جانب سے سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل کو پہلے سے تیار کیے گئے سوالات کے جوابات دینے کے حوالے سے نوٹس بھی بھیجے گئے۔
بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل عبدالطیف یوسفزئی پہلے ہی کورٹ نوٹس پر ہیں، لیکن اس وقت وہ ملک سے باہر ہیں۔ یہ نوٹس اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کی درخواست پر جاری کیے گئے، جنھوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے پر تمام صوبائی قانونی افسران کا مؤقف جاننا ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل کے مطابق بحث کے بعد جو بھی قانون بنایا گیا، اُس کا اطلاق تمام صوبوں پر ہو گا۔ یہ معاملہ پہلے جسٹس ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک چھوٹے بنچ کے پاس زیرِ سماعت تھا، جس نے 5 جون کو مقدمے کی سماعت کے بعد چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی سے درخواست کی تھی کہ اس سلسلے میں ایک لارجر بنچ بنایا جائے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ لاپتہ افراد سے متعلق کم از کم چار کیسز سپریم کورٹ کے دوسرے بنچوں کے پاس زیرِ سماعت ہیں۔ جسٹس خواجہ نے ان تمام کیسز کو بھی سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے سامنے پیش کرنے کے معاملے پر غور کیا تھا۔
یاد رہے کہ پانچ جون کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے تین سوالات فراہم کیے تھے۔ اگر کوئی فرد پاکستان پینل کوڈ کے تحت کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے اور وہ فرد پاکستان فوج میں بھی خدمات سرانجام دے رہا ہے تو کیا اس کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کے تحت کارروائی کی جائے گی یا پھر پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت اس پر مقدمہ چلایا جائے گا؟
کیا عام عدالتیں، فوجداری عدالتوں کی درخواست پر کسی مقدمے کی سماعت کر نے کی پابند ہیں یا پھر یہ عام عدالتوں کا اپنا اختیار ہے کہ وہ فوجدرای عدالت کی درخواست پر عمل کریں یا نہ کریں؟
کیا عام عدالتیں فوجداری عدالتوں کی جانب سے موصول ہونے والی درخواستوں کو قبول کرنے کے سلسلے میں اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہیں اور کن بنیادوں پر کسی بھی درخواست کو قبول یا مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے؟