ہم نئے نئے کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہوئے ہیں۔ اسلام آباد کے متعلق زیادہ نہیں جانتے۔ کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہونے کی دوسری وجوہات کے ساتھ ایک وجہ پانی بھی ہے۔کراچی منی پاکستان ہے۔غریب پرور کراچی میں اُس وقت ہم نے دو آنے روٹی اور دال مفت کھائی ہے۔ ہم کراچی میں ٥٥ سال سے رہ رہے تھے۔ کراچی کو اُس وقت سے دیکھ رہے تھے جب شام کو بندر روڈ پر پانی کاچھڑکائو ہوتا تھا یا بندر روڈ کو پانی سے دھویا جاتا تھا۔ کراچی کی سڑکوں میں ریل نماء محمد علی ٹرام وے کی ٹرامیں چلا کرتی تھیں۔ٹرام کا کرایہ دس پیسے کا سکہ تھا۔ ہم اکثرٹرام پر سفر کرتے تھے۔محمد علی ٹرام وے کا ہیڈ کواٹر بندر روڈ کے درمیانی حصہ میں تھا۔ہم سمندر کے کنارے سیر کے لیے نٹی جٹی جایا کرتے تھے۔ بادبانی یا موٹر لائنچ میں بیٹھ کر نٹی جٹی سے سمندر کے کنارے منوڑا بھی جایا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں سمندر خشکی سے اِتنا دور نہیں تھا جتنا اب ہم اِسے چھوڑ کر آئے ہیں۔کلفٹن میںسر شاہ نواز بھٹو کے فرزند ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے گھر سے چند قدم پر بہرام کھٹاری تک سمندر کی لہریں آیا کرتی تھیں۔
ہم نے کلفٹن سمندر کے کنارے عبداللہ شاہ غازی مزار کے نیچے میٹھ پانی کا چشمہ خود دیکھا اور اُس کا پانی بھی پیا تھا جو اب بند کر دیا گیا ہے۔ اب تو سمندر کو میلوں دور پتھروں کے بند باندھ کر بہروم کھٹاری سے بہت ہی دور کردیا گیا ہے۔بہرام کھٹاری سے سمندر تک سارے راستے یں بلند بالا عمارات بن چکی ہیں۔ ان ہی میں ایک طرف بلاول ہائوس بھی ہے۔ جہاں بے نذیر بھٹو صاحبہ پیا گھر گئی تھیں۔اس زمانے میں سمندر کا پانی تو ہمارے پیروں کے نیچے بھی آجایا کرتا تھا۔ وہ اس طرح کہ کیماڑی بھٹہ ولیج چار نل روڈ، کچی بستی میں ہمارے رشتے کے ماموں رہتے تھے۔ ہم والدہ صاحبہ کے ساتھ کبھی کبھی چار نل روڈ، کیماڑی بھٹہ ویلج ان کے گھر جاتے تو مدر جر کا پانی ان کی جھوپڑی میں داخل ہو جاتا ۔ پھر گھر کا سامان اُوپر چار پایوںپر رکھنا پڑتا۔ کچھ دیر بعد پانی اُتر جاتا۔ ریت کی وجہ سے زمین خشک ہو جاتی۔ ہم اس سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔کبھی کبھی کلفٹن بہرام کھٹاری جاتے توپانچے اُوپر کر کے سمندری پانی میںگھوم کر سیرکرتے تھے۔١٩٦٣ء میں ہم شیر شاہ کی کچھی بستی میں رہتے تھے۔
گھروں میں پانی کا حکومتی کنکشن نہیں تھا۔گدھا گاڑی والا پانی سپلائی کرتا تھا۔ صبح صبح وہ دروازہ کھٹکٹا تا۔ ہم گھر کا دروازہ کھولتے۔ وہ ٹین کے دو کنستروں میں پانی ڈال دیتا۔ اسی سے ہم نہاتے ، کھانے پکانے اور پینے میں استعمال کرتے تھے۔پھر ہم ١٩٦٩ء میں نیشنل ہائی وئے پر واقع اختر کالونی شفٹ ہو گئے۔جہاں بھی ہم بانگی (یعنی بانس کے ٹھنڈے کے دونوں کناروں پر ٹین کے کنستر) سے بانی بھر کر لاتے تھے۔ آپ یقین جانے نہ ہمیں شیر شاہ میں ٹین کے دو کنستروں کے پانی، کیماڑی بھٹہ ویلج چار نل روڈ کے پانی جو گھر جھوپڑی میں داخل ہو جاتا اور نہ ہی اختر کالونی میں بانگی سے پانی بھر کر لانے سے کوئی شکایت تھی ،نہ بہرام کھٹاری والے پانی سے گلا تھا۔ بلکہ اس سے تو ہم لطف اندوز ہوتے تھے۔ایسے ہی میںکراچی میں نصف صدی سے زیادہ عمر گزری گئی ۔اِدھر ُادھر شفٹ ہوتے ہوتے جب آخر میں ہم نیشنل ہائی وے پر ڈیفنس سوسائٹی کے سامنے اختر کالونی کی گھی نمبر ٥ سیکٹر اے میں اسی گز کے پلاٹ پر بنے دو فلیٹوں میں کرایہ پر رہائش پذیر ہو گئے۔ تین بیٹیاں شادی شدہ تھیں وہ اپنے گھروں میں تھیں۔ ہم اپنے شادی شدہ چار بیٹوں کے ساتھ ان دو فلیٹوں میں چھوٹے چھوٹے چھ کمروں میں رہ رہے تھے۔کراچی میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ پانی کی ضرورت بھی بڑھتی رہی۔ مگر ایک عرصہ سے کراچی میں اقتدار کے مزے لوٹنے والوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی اتحادی حکومتوں نے پینے کے پانی کا مناسب انتظام نہیں کیا۔پوری کراچی جو حال ہے وہ تو سب کو معلوم ہے۔اختر کالونی میں لوگ پانی کی بوندھ کو ترستے رہتے ہیں۔نلوں میں پانی نہیں آتا۔ لوگ ٹینکروں سے پانی ڈلواتے ہیں۔ ہم دو فلیٹ میں مقیم چار خاندانوں کے لیے ١٢٠٠٠ ماہوار پانی ٹینکروں سے ڈلواتے ڈلواتے جب تھک ہارگئے تو سارے خاندان کے ساتھ اسلام آباد کے آئی ٹین فور سیکٹر میں شفٹ ہو گئے۔جہاں بھی پانی کی کمی ہے۔اکثرلوگ احتجاج کرتے رہتے ہیں۔
الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے سی ڈی اے اسلام آباد دفتر کے سامنے ایم ایم اے کے موجودہ امیدوار قومی اسمبلی میاں اسلم صاحب نے اسلام آباد میں پانی کی کمی کے لیے دھرنا دیا۔ہم بھی اس دھرنے میںشریک ہوئے۔ مقررین نے اسلام آباد میں پانی کی کمی اور ٹینکروں کے من مانے پیسوں پر دھواں دھار تقاریر کیں۔کچھ نے سی ڈی اے کی پانی سپلائی بارے ناقص پلائنگ پر بات کی۔ کچھ نے کہا کہ اسلام آباد راولپنڈی کو پانی سپلائی کرنے والے راول ڈیم ، سملی ڈیم اورخان پور ڈیم خشک ہو رہے ہیں۔ کچھ نے کہا کہ زمین میں بورنگ والے کئی کنوںخشک ہو گئے۔ کچھ کا پانی نیچے چلا گیا۔کچھ کنوں پر موٹریں خراب پڑیں ہیں ۔ اس لیے اسلام آباد میں پانی کی کمی ہے۔ہم نے دھرنے کی پوری کاروائی سنی مگر مصروفیات کی وجہ سے اس کو متعلقہ اداروں تک پہنچانے کی صحافتی ذمہ داری پوری نہ کر سکے یعنی اسلام آباد میں پانی کی کمی پر کالم نہ لکھ سکھے۔ اب جب عام الیکشن کا موسم آ گیا۔
ہر امید وار اسلام آباد میں پانی کے مسئلہ پر اپنے ووٹروں کو مطمئن کر رہے ہیں۔ دھرنے میں میاں اسلم صاحب نے اسلام آباد میں پانی کی کمی پر جوباتیں کی وہ ہمیںازبر یاد ہیں۔ اسی کی وجہ سے یہ کالم لکھ رہے ہیں۔
میاں اسلم صاحب نے احتجاجی دھرنے میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جب وہ ٢٠٠٢ء میں اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئے تو دوسرے ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں پانی کے مسئلہ پر بنیادی کام کیا۔ اگر اس وقت وہ کام مکمل ہو جاتا تو اسلام آباد میں پانی کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسلام آباد میں پانی کی فزیبلٹی کے لیے انجینئرز کی ایک ٹیم کو کام سونپا۔ اس ٹیم کے ذمہ یہ کام لگایا کہ تحقیقی رپورٹ تیار کریں کہ اسلام آباد میں پانی دریائے جہلم یا دریائے سندھ سے لانا ممکن ہے۔ انجینئرز نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ دریائے سندھ سے اسلام آباد پانی لانا ممکن ہے۔ میں نے یہ رپورٹ پہلے سی ڈی اے سے منظور کروائی۔ اس کے بعد بل کی شکل میں اسے پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اسمبلی نے اس بل کو پاس کیا۔اب اس کے لیے فنڈ کو مختص کرنا تھا کہ اس کے بعد اُس اسمبلی کاوقت پواہو گیا اور یہ معاملہ اٹک گیا۔ اس کے بعد اسلام آباد سے دو دفعہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ مگر ان حضرات نے اس کام کے لیے فنڈ مختص نہ کروائے۔ جو ایک مجرمانہ غفلت یا اسلام آباد کے باسیوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ انہوں کہا کہ اسلام آباد اپنے نقشے کے مطابق ابھی ایک تہائی آباد ہوا ہے۔ دو تہائی آباد ہونا باقی ہے۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب اسلام آباد اپنے پاس شدہ نقشے کے مطابق آباد ہو جائے گا تو پانی کی کیا کفیت ہو گی۔
صاحبو! پانی کسی بھی آبادی کی بنیادی ضرورت ہے۔روڈ کچے ہوں،سوریج نہ ہوں ، صحت کا بنیادی ڈھانچہ نہ ہو تو بھی مجبوراً وقت گزر سکتا ہے۔ مگر پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس کے لیے میاں اسلم صاب ایک پروگرام رکھتے ہیں۔ پاس شدہ فزیبلٹی رپورٹ کے مطابق غازی سے دریائے سندھ کا پانی اسلام آباد کے لیے بذریعہ نہر لایا جا سکتا ہے ہے۔میاں اسلم صاحب امیدوار قومی اسمبلی حلقہ ٥٥٥٤ اسلام آباد کے لیے پانی کے حل کے لیے ایک فزیبلٹی پاس کروائی ہوئی ہے۔ بس اس کے لیے فنڈ مختص کرواکر کام شروع کرنا ہے۔میاں اسلم صاحب اسلام آباد کی قومی اسمبلی کی سیٹ جیت کر اسمبلی میں پہنچ کر یہ کام کروا سکتے ہیں ۔اس لیے ہماری رائے میں اسلام آباد میں میاں اسلم کو جیتنا چاہیے ؟