اسلام آباد (جیوڈیسک) طالبان کمیٹی کا صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات کا مطالبہ۔ مذاکرات کا اطلاق پورے ملک پر نہیں صرف شورش زدہ علاقوں پر ہو گا، حکومتی اور طالبان کمیٹی کا پہلے اجلاس میں اتفاق۔
حکومتِ پاکستان اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا پہلا اجلاس ختم ہو گیا۔ مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس میں طالبان کی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے پریس ریلیز پڑھ کر سنائی جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں کمیٹیوں نے مثبت رویے کا مظاہرہ کیا اور اتفاق کیا کہ فریقین میں سے کوئی بھی امن مذاکرات کو نقصان پہنچانے والی کارروائی نہ کرے اور امن و سلامتی کے منافی تمام کارروائیوں کا سلسلہ بند کر دیا جائے۔
حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے نکات میں کہا گیا ہے کہ بات چیت مکمل طور پر آئینِ پاکستان کی حدود میں ہونی چاہیے اور امن مذاکرات زیادہ طویل نہیں ہونے چاہییں۔ حکومت نے طالبان سے یہ بھی کہا ہے کہ ان سے کیے جانے والے مذاکرات کا دائرہ شورش زدہ علاقوں تک محدود رہے گا اور یہ پورے پاکستان پر محیط نہیں ہوں گے۔ حکومتی کمیٹی نے طالبان سے نمائندہ کمیٹی کے علاوہ خود طالبان کی طرف سے بنائی جانے والی نو رکنی کمیٹی کے بارے میں بھی استفسار کیا اور پوچھا کہ کیا حکومتی کمیٹی کو اس سے بھی بات کرنا ہو گی۔
انہوں نے طالبان سے اس کمیٹی کا دائرہ کار واضح کرنے کو بھی کہا۔ مشترکہ بیان میں طالبان کی کمیٹی کے تحفظات کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور حکومت سے اس کی کمیٹی کے مینڈیٹ اور دائرہ کار کی وضاحت طلب کی گئی۔ طالبان کی نمائندہ کمیٹی نے وزیراعظم، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی۔
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وہ حکومتی کمیٹی کے مطالبات جلد طالبان تک پہنچائیں گے اور ان کے جواب سے حکومت کو آگاہ کیا جائے گا جس کے بعد مذاکرات کا دوسرا دور ہو گا۔
طالبان سے بات چیت کے لیے بنائی جانے والی حکومت کی کمیٹی میں وزیرِاعظم کے مشیر عرفان صدیقی کے علاوہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے کے سابق افسر میجر محمد عامر خان، سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی اور افغانستان میں سابق پاکستانی سفیر رستم شاہ مہمند شامل ہیں جبکہ طالبان کی نمائندہ کمیٹی جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جماعتِ اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز پر مشتمل ہے۔