تحریر: پروفیسر مظہر اذہان وقلوب میں محرومیوں کے بھڑکتے الاؤ، برگ خزاں کے زرد چہروں پر مایوسیوں کے سیاہ ناگ پھَن پھیلائے ہوئے، امید صبح کے آثارناپید ،دعاکے لیے اٹھتے ہاتھوں پر رعشہ طاری اور مایوسیوں کے بحرِ بیکراں میں غوطے کھتی قوم کایہ عالم کہ
نہ مستجاب اتنی دعائیں ہوئیں کہ پھر میرا یقیں بھی اٹھ گیا رسمِ دُعا کے ساتھ
دعائیں بھلا مستجاب کیوں کرہوں کہ ہم اس لم یزل سے ناطہ توڑ کر زمینی خداؤں کے آگے سجدہ ریز جس نے حکمت کی کتاب میں درج کردیا ”کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اپنے کندھوں پراٹھائے نہیں پھرتے ۔تحقیق کہ تمہارا رَب انہیں رزق دیتاہے اور تمہیں رزق دینے والابھی وہی”۔ لاریب اگرحصولِ منزل کاایقان اذہان وقلوب میں گھر کرلے تو کوہِ الم کی تسخیر ممکن وگرنہ نہیں ،ہرگز نہیں کہ حکمت کی رفیع الشان کتاب کایہ واضح فرمان کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
Leader
اِدھر مجبور ومقہور قوم کایہ عالم کہ نے ہاتھ باگ پر ہیں نہ پا ہے رکاب میں اور ادھر مآل سے بے خبرو بے نیاز رہنماء کرسی کی تگ ودَو میں اپنی حدوں سے نکلتے ہوئے ۔کچھ قوتوں کی نظر میں قابلِ قبول بننے کے لیے وزیرِاعظم صاحب نے ”لبرل پاکستان” کا نعرہ لگایا تو بھٹو مرحوم یاد آ گئے جن کے ذہنِ رسانے اسلام ہمارا مذہب ،سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام کا ملغوبہ تیار کیا لیکن ربِ کائنات نے انہیں نشانِ عبرت بنادیا اور جن کووہ طاقت کا سرچشمہ سمجھتے تھے اُنہی کے سامنے وہ تختۂ دارپہ لٹکادیئے گئے کہ طاقت کاسرچشمہ تواللہ صرف اللہ جس نے ہمیں مکمل ضابطۂ حیات عطا کرکے دین میںپورے کے پورے داخل ہونے کاحکم دے دیا۔جب وزیرِاعظم صاحب نے لبرل پاکستان کی بات کی تو سیکولر دانشوروں کی آنکھوں کی چمک قابلِ دید تھی۔
ایک لکھاری نے کہا ”لبرل ازم کے حوالے سے جاری بحث سے اندازہ لگایاجا سکتاہے کہ کم علمی کی نعمتوں سے فیض پانے والوں کی کمی نہیں”۔ یہ بجاکہ ہم ٹھہرے کم علم لیکن کج بحث نہیں، ہمیںتو ”لبرل ازم” کی اُسی معروف تعریف کاپتہ ہے جودین کوسیاست سے الگ کرکے ایسے مادرپدر آزاد معاشرے کوجنم دیتی ہے جس کی جھلک یورپی اقوام میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ہمارا جزوِ ایمانی یہ کہ حاکمیتِ اعلیٰ ربِ کردگار کی اورانسان زمین پراللہ کانائب جواُس کے احکامات سے سرِمو انحراف نہیں کر سکتا۔ ویسے لکھاری موصوف نے لبرل ازم کوقابلِ قبول بنانے کے لیے ”لبرل” کی جو تعریف اپنے کالم میں کی ہے وہ توعین اسلام ہے لیکن کچھ حدودوقیود کے ساتھ جن کے لکھاری موصوف قائل نہیں۔ شخصی آزادی جتنی دینِ مبیںمیںدی گئی اُتنی کسی اور”ازم” میں نظر نہیں آتی کہ ایک عام صحابی بھی امیرالمومنین حضرت عمر سے یہ سوال کرنے کی جرأت رکھتاہے کہ ”آپ کے حصّے میںتو ایک چادرآئی تھی ،یہ دوسری چادرکہاں سے آگئی ؟”۔
حضرت عمر کووضاحت کرنی پڑتی ہے کہ اُن کاقد طویل ہے اورایک چادرسے جسم ڈھانپا نہیں جا سکتاتھا اِس لیے بیٹے نے اپنی چادر مجھے دے دی ۔خواتین کے حقوق سب سے پہلے دینِ مبیں نے ہی متعین کیے اوروہ معاشرہ جہاں بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتاتھا اُس میںعورت کواعلیٰ ترین مقام عطاکیا ۔ اسلام کابھرپور معاشی نظام موجودہے اِس لیے ہمیں کسی دوسرے ”ازم” کے معاشی نظام کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ پھرپتہ نہیں وزیرِاعظم صاحب نے کیوں ”لبرل پاکستان” کی بات کرکے ہم جیسوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ”اب کسے رہنماء کرے کوئی”۔
PPP
کئی بار حکمرانی کے مزے لوٹنے والی پیپلزپارٹی سے بھی قوم نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں لیکن وہ تو اپنی موت آپ مرچکی ۔زرداری صاحب دبئی جا بیٹھے اور بلاول دیہی سندھ میںکامیابی پربھی بغلیںبجا رہاہے ۔جماعت اسلامی نے تحریکِ انصاف کی ”بی ٹیم” بن جانے میںہی عافیت جانی لیکن گوہرِ مقصود پھربھی ہاتھ نہیںآ سکااور وہ بلدیاتی انتخابات میں بری طرح پِٹ گئی ۔ہمارا خیال تھا کہ انقلابی ذہن رکھنے والے محترم سراج الحق صاحب کے دورِ امارت میں جماعت اسلامی اُبھرکر سامنے آئے گی لیکن ایساہوتا فی الحال تونظر نہیںآ رہا اوریوں محسوس ہورہا ہے کہ جیسے جماعت اسلامی کواپنا الگ تشخص برقرار رکھنے میںبھی مشکلات کاسامنا ہو۔
رہی بات کپتان صاحب کی تو انہیں تاحال ”دھاندلی” کی رَٹ لگانے سے فرصت نہیں۔ بلدیاتی انتخابات کاتیسرا مرحلہ گزرجانے کے بعداُنہوںنے ایک دفعہ پھریہ بیان” داغنا” ضروری سمجھاکہ الیکشن کمیشن نوازلیگ سے ملاہوا تھااور 2013ء سے بھی زیادہ دھاندلی بلدیاتی انتخابات میںہوئی۔ سوال مگریہ ہے کہ اگراُنہیں یقین تھاکہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی ہوگی تووہ الیکشن کابائیکاٹ کرکے سڑکوںپر کیوںنہیں آئے ؟۔ انہوں نے فرمایاکہ چارمیں سے تین حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوگئی جبکہ حقیقت یہ کہ کہ اِن تین حلقوں میں سے کسی ایک میں بھی الیکشن ٹربیونلز نے جیتنے والے امیدوار پر دھاندلی کاالزام نہیںلگایا۔ انتخابی بے ضابطگیوں کی بات ضرور ہوئی لیکن دنیاکی کوئی عدالت بھی انتخابی بے ضابطگی کودھاندلی قرارنہیں دے سکتی ۔
تحقیقاتی کمیشن نے بھی انتخابی بے ضابطگیوںکا کھُل کرذکر کیا لیکن ساتھ ہی 2013ء کے انتخابات کودھاندلی سے پاک اورعوام کی توقعات کے عین مطابق بھی قراردیا۔ بلدیاتی انتخابات میںبھی نتائج 2013ء کے انتخابات کے عین مطابق ہی آئے ۔ اِس کے باوجودبھی خاںصاحب میںنہ مانوں کی رَٹ لگاتے پوری قوت سے دھاندلی کاراگ الاپ رہے ہیں۔ اُن کے قحطِ اعتبار کایہ عالم کہ ”الجھاؤ ہے زمیں سے ،جھگڑا ہے آسماںسے”۔ نسلِ نونے تو خاں صاحب کی کرشماتی شخصیت سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں لیکن اب وہ بھی یہ کہنے پر مجبور کہ ”اب کسے رہنماء کرے کوئی”۔