پاکستان کی سلامتی کے اداروں کو تو ایسا لگتا ہے ہمارے حکومتی اداروں نے Terncolizer دے دے کر گہری نیند سلایا ہوا ہے۔ کہ کراچی اور اسلام آباد سمیت کوئی ایک بھی علاقہ محفوظ نہیں رہا ہے۔ دہشت گرد جب اور جہاں چاہتے ہیں اپنی من مانی کار وائیاں کرتے ہیں اور جادو کی ٹوپی پہن کر سب کے سامنے یہ جا اور وہ جا!!! ان کا تو شائد یہ دعویٰ ہے کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے خد ا خدا کر کے طالبان نے ایک ماہ کے لئے اپنی کا وائیاں روک دینے کا اعلان کیا تھا کہ اگلے ہی دن اسلام آباد کے F-8 سیکٹر میں واقع عدالت میں آگ اور خون کا گھنائونا کھیل حرار الہند نامی دہشت گرد تنظیم نے بغیر کسی روک ٹوک کے کھیل کر دکھا دیا چوہدری نثار جس کے لئے ا یک ہفتہ پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کی اسلام آباد کی سکیورٹی فول پروف ہے اس میں کوئی پریندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہے!!
بڑی عجیب بات یہ ہے کہ یہاں پریندے کے بجائے ہاتھیوں کی یلغار ہوگئی جہاں ایک جج سمیت 11 شہادتیں ہوگئیں اور 40 کے قریب لوگ زخمی ہوگئے اور ہمارے وزیر داخلہ اور ان کے زیرِ سایہ چلنے والے اداروں کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی!!! دارالحکومت کے در حقیقت یہ fool prough انتظامات تھے بالکل ہاتھی دانت کی طرح!!! جن کی وجہ سے عدالت پر متعین 47 کے 47 پولس اہلکاروں میں سے کسی ایک کو بھی خبر نہ ہوئی؟؟؟ قاتل آدھے گھنٹے تک چن چن کر لوگوں کو نشانہ بنا بنا کر لوگوں کوموت کے گھاٹ اتارتے رہے اور اُس وقت تک پولس اہلکاروں کی اپنے اپنے گھروں میں چائے کی چُسکیاں ہی ختم ہونے میں نہیںآ رہی تھیں۔ اپنے چیمبر میں بیٹھے ہوے ایڈیشنل و سیشن جج رفاقت اعوان اور علامہ اقبال یونیورسٹی کے ریجنل ڈائریکٹر اور ایک تیئس سالہ ہونہار وکیل اور چار دیگر وکیل اس سانحے میں جاں بحق ہوے ہیں۔جبکہ سیشن جج رفاقت اعوان کی شہادت کے بارے میں چوہدری نثا کایہ موقف اسمبلی کے ایوان میں سامنے آیا ہے کہ ان کو گولی ان کے گارڈ کی گن سے ہونے والے تین فائر سے لگی ہے… اور اس کا اعترافِ جرم بھی سرکاری گارڈ نے کر لیا ہے۔ جج کو لگنے والی گولی کلاشن کوف کی نہیں بلکہ 9 MM پستول کی ہے۔ حقیقت کیا ہے یہ تو بعد کے دنوں میں سامنے آئے گی!
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تین سے چھ دہشت گرد صبح 8.30 عدالت کے احاطے میں داخل ہوے جن کی عمریں 14 سے 22 سال کے درمیان تھیں۔ ان میں سے تین نے اپنے آپ کو چادروں میں لپیٹا ہوا تھا۔ جنہوں نے دستی بموں اور خود کار ہتھیاروں سے شدید فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ اور دستی بم دھماکوں کی وجہ سے لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی عدالت میں اس وقت جو چند پولس والے موجود تھے وہ بھی اپنی جانیں بچانے کے لئے چھپ گئے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ اُن کے ہتھیار زنگ آلود اور نا قابلِ استعمال تھے اورنہ ہی اُن کی طرف حملہ آوروں کی کوئی مزاہمت کی گئی تھی۔ لہٰذا دہشت گرد اپنا مشن پورا کر کے بغیر کسی مزاحمت کے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور انہیں اپنے فرار کے راستوں میں کہیں بھی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی مزاحمت کا سامنا بھی بہ کرنا پڑا!!! اسلام آباد گویا دہشت گردوں کے لئے نہایت محفوظ تھا۔ کہ جس راستے سے وہ چاہیں آسانی کے ساتھ گذر گئے۔
Islamabad Security
حساس اداروں نے پہلے ہی اسلام آباد میں ہونے والی دہشت گردی کی خبر تو دیدی تھی مگر ادروں اور وزارٹِ داخلہ نے اس خبر کا کوئی نوٹس لینا اپنی کسرِ شان جانا تھا۔یہی وجہ تھی کہ دہشت گرد اپنا مشن پورا کر کے آسانی کے ساتھ نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ دہشت گردی سے متعلق حساس اداروں کی رپورٹ کے باوجود دارالحکومت کی سکیورٹی پر کان نہ دھرے جانا سولیہ نشان ہے۔ سکیورٹی اداروں کی نا اہلی کا شاخسانہ 3 ،مارچ کا واقعہ تھا۔مبصرین یہ شبہہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ شائد پولس کو اس واقعے کی اطلاع تھی مگر جان بو جھ کے دہشت گردوں کے لئے راستے کھلے چھوڑے گئے وہ کاروئی کر چکے تو اُس کے کافی دیر کے بعد پولس اہلکار وہاں پہنچے تھے۔اسلام آبادکا یہ علاقہ کہا جاتا ہے کہ نہایت حساس ہے کیونکہ یہاں پر اکثر سفارتی مشن کے دفاتر موجود ہیں۔ جبکہ اس علاقے میں داخلے کے لئے والک تھروع گیٹس بھی موجود ہیں مگر بد قسمتی یہ ہے کہ اس حساس علاقے کے حفاظتی انتظامات صفر دیکھے گئے ہیں۔ جو حکومت پولس اور اسلام آباد میں متعین دیگر لاء انفورسمنٹ اداروں کی کھلی ناکامی ہی ثبوت ہیں۔
یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ چیف جسٹس نے اس واقع کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔ یہ بڑی عجیب منطق ہے کہ چوہدری نثار اور کئی اور لوگ بھی کہہ رہے ہیںکہ ٹی ٹی پی پسِ پردہ ہا تھوں کو تلاش کرے!!! گویا حکومتی ادارے اس حوالے سے بالکل نا کام ہو چکے ہیں! جس پر طالبا کی جانب سے یہ جواب آیا ہے کہ پسِ پردہ ہاتھوں کو تلاش کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ حکومت اور اُس کی ایجنسیوں کا کام ہے۔ البتہ ان کی جانب سے یہ وضاحت ضرور کی گئی کہ اسلام آباد واقعے کے پیچھے غیر ملکی ایجنسیاں ہو سکتی ہیں۔ اور یہ بھی کہا کہ ہمارا کوئی گروپ اس معاملے میں ملوث ہوا تو اُس سے باز پُرس بھی ضرور کی جائے گی۔ اس وقعے پر وہ گروپس جو ملک میں خانہ جنگی دیکھنا چاہتے ہیں اور یہاں امن دیکھنا نہیں چاہتے ہیں اور ان کی دلی خوہش بھی یہ ہے کہ ملک میں ایک خونی معرکہ سج جائے تاکہ وہ اپنی روزی میں مزید برکتیں دیکھ سکیں۔ ان میں ایک گروپ ایسا بھی ہے جس نے ملک میں لوٹ مار دہشت گردی اور بھتہ مافیہ کو متعارف کرایا ہے اور کلاشن کوف کلچر کا وہ ماہر مانا جاتا ہے۔ اُس کی بھی خواہس ہے کہ اُس کے دہشت گرد کسی طرح آپریشن سے بچ جائیں… انہیں اس کے لئے ایک بڑی چھتری بھی استعامل کرنی پڑے پڑ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس گروپ کی جانب سے رات دن طالبان کے خلاف آپریش آپریشن کا وظیفہ پڑھا جا رہا ہے اور اس مطالبے کی گردان لگی ہے کہ طالبان کے خلاف آپریشن تو ضرور کیا جائے اور ملک میں میدان جنگ ہر صورت میں سجا دیا جائے۔ یہ ظالمان جو جمہوریت اور پاکستان کی مخالفت کرتے بھی نہیں تھکتے ہیں۔ آج اپنے آپ کو پاکستان اور افواجِ پاکستان کے سب سے بڑے حمائتی پوز کر رہے ہیں۔اُن کی اس ہیجانی کیفیت سے ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے۔
تحریکِ طالبان کا کہنا ہے کہ طالبان کے کسی گروپ کے جنگ بندی کے بعد کاروائیوں کے ثبوت ملے تو ان کے خلاف طالبان کی جانب سے کاروائی ضرور کی جائے گی۔ طالبان کا ماننا ہے کہ جنگ بندی کے بعد کاروائیاں کرنا بغاوت ہے۔ اس بارے میں اگر حکومت کے پاس کوئی ثبوت ہے تو کمیٹی کو فراہم کرے۔ باہر سے تعلق رکھنے والا اگر کوئی گروپ طالبان کے علاقوں میں کاروائیاں کرتا ہے تو ذمہ داری طالبان کی ہے لیکن دیگر علاقوں سے آپریٹ کرنے والے گروپ کے خلاف حکومت کوکاروائی کرنا ہوگی۔
ہم سمجھتے ہیں طالبان کی جانب سے اس قسم کا بیان آجانا خوش آئیند ہے۔ جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ مگر جو گروپ اور سیاسی جماعتیں اپنے آقائوں سے آپریشن کرانے کے وعدے کر چکے ہیں ان کی مسلسل یہ کوشش ہے کہ ہر دہشت گردی کامعا ملہ کرانے یا ہوجانے کے بعد طالبان کا انوالمنٹ اُس واقعے میں ثابت کرنے لئے جس قدر جھوٹ فریب سے کام لیا جا سکتا ہے لے لیا جائے۔ تاکہ مذکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکے۔سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو پاکستان میں امن کے آجانے سے خائف ہیں اور یہاں پر گولہ بارود کی بو پھیلانے اور خون کی ندیاں جاری کرانے میں خوشی کا اظہار کر رہے ہیں؟
پیپلز پارٹی کے قائد حزبِ اختلا ف خورشید شاہ نے اسمبلی میں سوال اٹھایا ہے کہ وزیر داخلہ بتائیں 8 دہشت گرد 45 منٹ تک موجود رہے اُن کی ریپڈ فورس کہاں تھی؟ ان کی طرف سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چوہدری نثار گارڈ کے فائرنگ کے واقعے کو آڑ بنا کر دہشت گردوں کی حمایت کر رہے۔ ہیں؟؟؟ مگر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ وہ خود دہشت گردی کے واقعات سے فائدہ اٹھا کر ملک میں آگ اور خون کا بازار گرم کرانے اور موجودہ حکومت کو اپنے مصنوعی ہتھکنڈوں کے ذریعے گرانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔البتہ موجودہ حالات کے تناظر میں اسلام آباد کی سکیورٹی واقعئی ایک سوالیہ نشان تو بن چکی ہے۔ جس پر حکومت اور اداروں کو بہر طور توجہ تو دینی ہوگی ہی!!!