اسلام آباد کو فتح کرنے کے بعد سونامی نے فیصل آباد کا رُخ کر لیا اور تسخیرِ فیصل آباد کے بعد اب فتح کے شادیانے بجاتی ہوئی سیالکوٹ کی جانب رواں دواں ہے جہاں اُس کا ”ٹاکرا” خواجہ آصف سیالکوٹی سے ہو نے والا ہے ۔ہم پہلے سے کہے دیتے ہیں کہ ”چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک”۔کہاں ہماری سونامی اور کہاں خواجہ آصف ۔اب کی بارجس ”دھواں دھار ”انداز میں ہماری سونامی نکلی ہے اُس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ”اب تخت گرائے جائیں گے، اب تاج اچھالے جائیں گے ”۔اِس کا کچھ کچھ اندازہ تو لیگیوں کو بھی ہو گیا ہے۔
کَل ایک ” لیگیئے” سے ملاقات ہوئی تو اُس نے جَل بھُن کر کہا کہ ”ہم جانتے ہیں کہ یہ کِن قوتوں کے اشارے پر ہو رہا ہے ”۔ہم نے کہا کہ ہم تو ٹھہرے نِرے بُدھو اور جاہل ۔آپ ہی یہ بتلا دیں کہ آپ کا اشارہ کِن قوتوں کی طرف ہے؟۔اُس نے کہا ”اتنا بھولا بننے کی ضرورت نہیں ، ہم تو پہلے ہی ”وَخت” میں پڑے ہوئے ہیں ۔کیا آپ چاہتی ہیں کہ ہمارے پَلّے ”کَکھ” نہ رہے ۔ہاں اتنا ضرور کہے دیتے ہیں کہ حکومت بہرحال ”شریفوں” کی ہی رہے گی ، نواز شریف نہ سہی راحیل شریف سہی ۔آپ کے ”کپتان شریف ”تو ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے اور وہ جو آپ کو خیرات میںخیبرپختونخوا کی حکومت دی گئی ہے ، وہ بھی ہاتھ سے جائے گی ”۔حضرت علی کا قول ہے ”یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے ویسے بھی حکمت کی عظیم الشان کتاب میں درج کر دیا گیا ”اچھّی بات اپنے اثر کے لحاظ سے اُس درخت کی مانند ہے۔
جس کی جڑیں زمین کی تہہ میں ہوں اور شاخیں آسمان (کی بلندیوں) پر ”۔سچی بات ہے کہ اُس لیگیئے کی بات دِل کو چھو گئی اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر مآلِ کار یہی ہے تو پھر دھوپ میں جلنے کا فائدہ؟۔پھر ذہن میں آیا کہ ہمارے کپتان صاحب نے تو قومی خدمت کے ”جذبے” کے تحت آمر پرویز مشرف سے بھی سمجھوتہ کر لیا تھا ۔اگر کوئی اور طالع آزما آ جائے گا تو اُس سے سمجھوتہ کرنے میں ہرج ہی کیا ہے ۔اِس کا کم از کم اتنا فائدہ تو ہو گا کہ اِس ”سَڑی بُسی” جمہوریت سے نجات مِل جائے گی اور میاں برادران سے بھی ۔ویسے بھی ہمارے کپتان صاحب بار بار یہ کہتے ہیں کہ ”جمہوریت ہے کہاں جو ڈی ریل ہو گی ”اور اب توتحریکِ انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ اگر موجودہ حکومت سے جان چھڑانے کے لیے سسٹم ڈی ریل ہوتا ہے تو ہوجائے ، ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔
ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ اگر خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت مشکلات کا شکار ہے تو اِس سے دوسروں کے پیٹ میں مروڑکیوں اُٹھنے لگتے ہیں۔ابھی تو ہم نے کرکٹ کے میدانوں سے سیاست کے میدانوں کی طرف سفر کا آغاز ہی کیا ہے ۔اِس لحاظ سے ہم میدانِ سیاست کے نو وارد و نو مولود ہیں اِس لیے قوم کو ہمیں بیس ، تیس سال تو دینے ہی ہونگے تاکہ ہم بھی کرکٹ کے کھلاڑی کی بجائے سیاست کے کھلاڑی بن سکیں۔ لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا کہ ”لے دے” شروع ہو گئی ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی میاں برادران کی ہمارے خلاف سازش ہے کہ خود تو پنجاب جیسا ”ہَرا بھَرا” صوبہ سنبھال لیا اور ہمیں پھینک دیا پہاڑوں میںمولانا فضل الرحمٰن کے طعنے سننے اورطالبان کی غذا بننے کے لیے ۔اِس صریحاََ نا انصافی پر ہم احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی جماعت کے اکابرین چونکہ موٹے تازے اور صحت مند ہیں اِس لیے وہ ہر وقت ہمارے ”سمارٹ” وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کا مذاق اُڑاتے رہتے ہیں ۔حافظ حسین احمد کہتے ہیں ”پَتلا پرویز پروٹوکول کے بغیر وزیرِ اعلیٰ لگتا ہی نہیں ۔اُس نے عمران خاں سے پروٹوکول لینے کے لیے پنجاب پولیس پر رشوت کا الزام لگایا ”۔یہ بجا کہ پرویز خٹک صاحب اپنی سادگی کی بنا پر رعب داب والے وزیرِ اعلیٰ نہیں لگتے لیکن ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ پنجاب پولیس اُنہیں سِرے سے پہچان ہی نہ پائے ۔ قصّہ یوں ہے کہ پرویز خٹک صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پنجاب سے خیبرپختونخوا جا رہے تھے کہ راستے میں پولیس نے اُن کی گاڑی روک لی۔
Punjab Government
پرویزخٹک صاحب نے اُنہیں لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ ہیں لیکن پولیس اہلکاروں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔قصور پولیس کا بھی نہیں کہ اُس کا واسطہ تو چوہدری پرویز الٰہی اور میاں شہباز شریف جیسے ”ٹہکے والے” وزرائے اعلیٰ سے پڑتا رہا اور پڑ رہا ہے ، وہ بھلا پرویز خٹک صاحب کو کیسے وزیرِ اعلیٰ مان لیتے ۔ویسے ہم نے اِس پر بھی غور کیا ہے کہ کہیں یہ پنجاب حکومت کی شرارت تو نہیں تھی۔اگر یہ شرارت تھی تو پھر یقیناََ اِس کے پیچھے رانا ثناء اللہ کا ” ہَتھ” ہو گا۔ہم خٹک صاحب کے ساتھ کیے گئے اِس سلوک پر بھی احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور کہے دیتے ہیں کہ اگر ہمارے احتجاج اسی طرح سے اکٹھے ہوتے رہے تو پھر ”دیکھنا اِن بستیوں کو تُم کہ ویراں ہو گئی۔
ویسے تو ہمارے لال حویلی والے شیخ صاحب نے فیصل آباد کے جلسے میں رانا ثناء اللہ کو ایسا بھرپور جواب دیا کہ” فیصل آبادیے” خوش ہو گئے اور اُمید تو یہی ہے کہ اب رانا صاحب ہمارے ”سلِم ، سمارٹ” وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کو ”تیلی پہلوان” کہنا چھوڑ دیں گے لیکن اگر اُنہوں نے تیلی پہلوان کی رَٹّ نہ چھوڑی تو ہم کپتان صاحب سے درخواست کریں گے کہ وہ شیخ رشید صاحب کو مستقل فیصل آباد میں شفٹ ہونے کا حکم دیں تاکہ وہ رانا ثناء اللہ کا ”مَکو ٹھَپ” سکیں ۔شیخ صاحب نے اپنے خطاب کے دَوران یہ فرمایا کہ عیدِ قُربان سے پہلے قُربانی ہو گی ۔پھر اُنہوں نے عمران خاں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”سُن لیجئے خاں صاحب ! عیدِ قُربان سے پہلے قُربانی ہو گی”۔اب پتہ نہیںشیخ صاحب کِس کی قُربانی کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
اگرشیخ صاحب کسی ایک جگہ ٹِک کر بیٹھتے تو ہم بھی کچھ اندازہ لگاتے لیکن اُنہیں تو ایک پَل بھی چین نہیں ۔نواز لیگ چھوڑی تو سیدھے پرویز مشرف کے ”چرنوں ” میں جا بیٹھے ، قاف لیگ کو داغِ مفارقت دے کر اپنی ”ننّھی مُنی ”عوامی لیگ بنا لی ۔عوامی لیگ کے پرچم تلے دو انتخابات میں مُنہ کی کھائی تو ہمارے کپتان صاحب کے چَرن چھونے میں ہی عافیت جانی ۔آج تک تو وہ سونامیوں کے لیے دیدہ و دِل فرشِ راہ کیے بیٹھے ہیں ، کل کی اللہ جانے یا شیخ رشید جانیں۔
ہم نے اپنے کالم کے شروع میں یہ عرض کیا تھا کہ حالات اب اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ”اب تخت گرائے جائیں گے ، اب تاج اُچھالے جائیں گے”۔ وجہ یہ تھی کہ ایک تو سونامی اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ میدان میں ہے ، دوسرے ہمارے مُرشد طاہر القادری بھی پاکستان آیا ہی چاہتے ہیں اور ایم کیو ایم بھی بڑی بڑی ریلیاں نکال رہی ہے ۔ہم نے تو ساری زندگی یہی لکھا ، پڑھا اور سُنا کہ حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح فادر آف دی نیشن اور لیڈر آف دی نیشن ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ ہمارا علم کتنا ناقص ہے ۔ہم ایم کیو ایم کے شکر گزار ہیں جس نے ہماری تصحیح فرما دی کہ اصل فادر آف دی نیشن اور لیڈر آف دی نیشن تو ہمارے ”الطاف بھائی” ہیں ۔کراچی کی سڑکوں اور گلی محلوں میں یہی نعرے درج ہیں لیکن کتنی بَد قسمتی کی بات ہے کہ ہم 1992ء سے اپنے فادر آف دی نیشن سے دور ہیں۔
وہ تو پاکستان آنے کو بے تاب ہیں لیکن جب کبھی بھی اُنہوں نے واپسی کا ارادہ کیا ، ہم نے اُنہیں سختی سے منع کر دیا کیونکہ پاکستان میں ایک تو اُن پر کئی مقدمات درج ہیں اور دوسرے اُن کی جان کو خطرہ ہے ۔ہم اپنے ایم کیو ایم کے بھائیوں سے کہیں گے کہ الطاف بھائی واپس آئیں نہ آئیں ، وہ اپنے ”جناح پور” کے منصوبے پر کام جاری رکھیں لیکن نام کی اِس تبدیلی کے ساتھ کہ اب جناح پور کو ”الطاف پور” میں بدل دیں۔