تحریر: علی عمران شاہین سرزمین بنگال ایک بار پھر اہل وفا کے خون سے تر بتر ہے لیکن منظر حیرت انگیز ہے کہ جن کے لئے یہ اہل وفا مر رہے ہیں ،وہ تو ان کے جنازے میں شرکت کے لئے وضو کرتے بھی نظر نہیںآتے۔ کل کے مشرقی پاکستان اور آج کے اس بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت کی سربراہ حسینہ واجد نے ایک بارپھر اپنے ملک کے ان شہریوں کو سزائے موت سنانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے1971ء کی جنگ میں بنگالی عوام کے خلاف پاکستان اور پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ اس مہم میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش خاص نشانہ پر ہے جس کے ایک رہنما عبدالقادر ملا کو گزشتہ سال پھانسی پر چڑھایا گیا۔ چند روز پہلے جماعت کے ہی ایک سابق امیر92سالہ پروفیسر غلام اعظم عمر قید بھگتتے ہوئے اپنے رب سے جا ملے۔
پھر امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور سابق وزیر مطیع الرحمن نظامی کو سزائے موت سنائی گئی۔ چند روز بعد جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما میر قاسم علی کو سزائے موت سنا دی گئی۔
بنگلہ دیش میں سنائی جانے والی ان سزائوں کے لئے حسینہ واجد کی حکومت نے ایک خصوصی ٹربیونل 2010ء میں قائم کیا تھا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس کا مقصد 1971ء کی جنگ میں ہونے والی زیادتیوں کا پتہ چلا کر قصور واروں کو سزا دلانا ہے۔ جب یہ ٹربیونل قائم ہوا تو اس وقت بھی اس پر بہت لے دے ہوئی کہ یہ سراسر ذاتی انتقام کے لئے کارروائی کی جا رہی ہے لیکن عالمی سطح پر کسی ملک یا انسانی حقوق کے کسی ادارے تک نے بھی اس پر کوئی خاص بات نہ کی کیونکہ اس ٹربیونل سے وہ لوگ نشانہ بننے والے تھے
جن کی محبت اسلام سے ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ عوامی لیگ کی حالیہ حکومت مکمل طور پر بھارت نواز ہے۔ بھارت جو کہے حسینہ واجد بغیر سنے ہی پہلے سے حکم بجا لانے کو تیار کھڑی نظر آتی ہے۔ یہی تو کمال ہے کہ وہی یورپی یونین جو پاکستان پر تو سزائے موت کا قانون ختم کرنے یا اس پر ہمیشہ کیلئے عملدرآمد روکنے کیلئے دبائو ڈالتی ہے، بھارت اور بنگلہ دیش کے معاملے پر وہ مکمل طور پر خاموش ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک آج کل جن لوگوں کو سزائے موت دے رہے ہیں ان کا جرم اسلام سے محبت ہے اور اسلام سے محبت یورپی دنیا کو بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
یہ سب اپنی جگہ حقیقت لیکن حیرانی تواہل پاکستان پر ہوتی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے اس خالص انتقامی عمل پر کیوں خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ اور اسے بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ قرار دیا جاتا ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حسینہ واجد جن لوگوں کو پھانسیاں یا عمرقید کی سزائیں دے رہی ہے ان کا تعلق ہر لحاظ سے ہماری ریاست پاکستان سے بنتا ہے۔ 1971تک تو بنگلہ دیش پاکستان کا ہی حصہ تھا ۔اسی لئے توحکومت پاکستان نے لاہور کی 1974ء میں منعقدہ او آئی سی کانفرنس میں جب بنگلہ دیش کو بطور الگ ملک تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت یہ طے پایا تھا کہ 1971ء کے سانحہ کے دوران میں جو کچھ ہوا ہے، اس پر دونوں ممالک یعنی پاکستان اور بنگلہ دیش اب کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔
اب یہ باب ہر لحاظ سے ہمیشہ کیلئے بند ہے لیکن اس معاہدے کے 36سال بعد حسینہ واجد نے یہ باب پھر سے کھول رکھاہے اور بھارت کی ہدایت پر اپنے ہی ان شہریوں کو موت کے گھاٹاتارنے لگی ہے جو وہاں کی پارلیمان کا بھی حصہ رہے ہیں تو چند سال پہلے مرکزی وزارتوں کے قلمدان تک انہوں نے سنبھال رکھے تھے۔ ان سزائوں کے اعلان کے بعد بنگلہ دیش میں پہلے بھی دنگا فساد ہوا، فورسز کے ہاتھوں بے گناہ لوگ قتل ہوئے، لیکن حسینہ واجد بھارت کی دوستی اور پاکستان کی دشمنی میں اس قدر اندھی ہو چکی ہے کہ اسے بھارت کے ہر حکم کو بجا لانے میں کسی بات کی کوئی پروا نہیں۔
Pakistan
پاکستان کے وزیر داخلہ نے اس صورتحال پر اظہار تشویش تو کیا ہے لیکن اس پر وہ مناسب اقدام اٹھانے کا فیصلہ نہیں ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔ یہ تو کہاگیا ہے کہ وہ اس معاملہ کو بنگلہ دیش کے ساتھ حکومتی سطح پر اٹھائیں گے لیکن اس کی نوعیت اور انداز کیا ہو گا؟اس پر بات نہیں ہوئی ۔چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت پاکستان اپنے دوست ممالک اور او آئی سی سمیت دیگر آپشن استعمال کرتی اور بنگلہ دیش پر بھرپور دبائو ڈالا جاتا کہ وہ گڑے مردے نہ اکھاڑے اوربھارت کی خوشنودی میں اپنا ملک تباہ نہ کرے۔حسینہ واجد کو کوئی یہ باور کرانے والا بھی نہیں کہ جس بھارت کے ایما پر وہ اپنے ہی شہریوں کو پھانسیوں پر لٹکا رہی ہے وہ کسی سے وفا کرنے والا نہیں۔
ابھی چند دن پہلے ہی کی توبات ہے بھارت نے بنگلہ دیش کی بجلی اچانک بریک ڈائون کہہ کر بند کر دی۔پھر کیا تھا؟بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکہ اندھیرے میں ڈوبا پڑا تھا۔ایوان وزیر اعظم سمیت ہر جگہ کا نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا۔بنگلہ دیش نے حسینہ واجد کے دور حکومت میں ہی تو بھارت سے تعلقات اس قدر بڑھائے ہیں کہ اب اس کے ملک کی بجلی کا بڑا حصہ بھی بھارت سے آتا ہے ۔یوں اب بنگلہ دیش کی گردن بھارت کے ہاتھ میں ہے جسے وہ دبا کر ایک مرتبہ بتا چکا ہے کہ اب بنگالی اس کی مرضی کے بغیر جینے کا تصور ہی بھول جائیں۔بھارت نے آج کل بنگلہ دیش پر یہ الزام بھی زیادہ شد و مد سے دہرانا شروع کر رکھا ہے کہ اس کے ہاں سے جماعت مجاھدین کے درجنوں مراکز قائم ہیں ۔اس جماعت کے لوگ اب بھارت میں کاروائیاں کر رہے ہیں۔اس سب کو روکنے کے لئے بھارت نے بنگلہ دیشی سرحد پر حفاظتی اقدامات انتہائی سخت کر رکھے ہیں۔
سرحد پر آئے روز بنگال رائفلز کے سپاہی یا عام بنگالی بھارتی بی ایس ایف کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے اپنے ملک میں بنگلہ زبان بولنے والوں کا بھی الگ سے جینا حرام کر رکھا ہے۔گزشتہ سال آسام کے فسادات انہیں بنگلہ زبان بولنے والوں کے خلاف ہوئے تھے جن میں 5لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے تھے اور ان کی جھونپڑ بستیاں پھونک دی گئی تھیں۔بھارت سے اس طرح دوستی کے دم بھر پاکستان اور اسلام دشمنی کی حدیں پار کرنے والی حسینہ واجد کو بھارت کا اصل چہرہ یاد رکھنا چاہیے تو اپنے باپ مجیب الرحمان کا انجام بھی نہیں بھولنا چاہیے۔
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ پاکستان توڑ کر الگ ملک بنانے والا مجیب جس کا سارا بنگال مداح و دیوانہ تھا، عین اس دن جب اسے پناہ اور مدد مہیا کرنے والے ملک بھارت کا یوم آزادی تھا،مجیب اپنے سارے خاندان سمیت یوں ڈھاکہ میں اس قدر بے دردی سے مارا جائے گا کہ ان کی لاشیں بھی کتنے دن تک کوئی اٹھا نہ پائے گا۔اس عبرت ناک واقعہ میں صرف حسینہ واجد ہی بچ پائی تھی ۔اس لئے اس سمیت سب کو یا د رکھنا چاہیے کہ دنیا عبرت کی جا ہے۔
اس بات پر بھی افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ سال رواں جنوری میں حسینہ واجد نے یک طرفہ فراڈ الیکشن کے ذریعے سے ایک بار پھر حکومت سنبھالی تو اسے دنیا بھر نے بلاچون و چرا تسلیم کر لیا۔ جمہوریت کی دیوی کے پرستاروں نے اس بات پر آج تک جنبش نہیں کی کہ جب عوامی لیگ کے سوا ملک کی تقریباً سبھی پارٹیاں الیکشن کا بائیکاٹ کئے بیٹھی ہیں تو ان انتخابات کو کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ لیکن حسینہ واجد چونکہ بھارت کے سامنے ہر لمحہ، ہر لحظہ سر جھکائے کھڑی ہے اور اسلام کش پالیسیوں میں اس کا اب تک بنگلہ دیش میں کوئی مقابل نہیں ہے لہٰذا وہ سارے مغرب، امریکہ بلکہ سارے عالم کو قبول ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ آج کی مغربی دنیا میں حکومت کے حصول اور مقبول ہونے کا نسخہ اسلام سے بغاوت اور دشمنی ہی رہ گیا ہے جو حسینہ واجد ہر لحاظ سے پورا کر رہی ہے۔ لیکن وہ آگ جس سے حسینہ واجد کھیل رہی ہے، وہ اسے خود بھی بھسم کر دے گی۔تاریخ بھی اس پر شاہد ہے۔