تحریر: حبیب اللہ قمر پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے انسداد دہشت گردی اتحاد کا حصہ ہے تاہم اس اتحاد کے قواعد کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی۔ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے کہاکہ جنرل (ر) راحیل شریف ایک سویلین ہیں اور ان کے حوالے سے معاملات دفتر خارجہ کے زمرے میں نہیں آتے۔ سعودی عرب کے راحیل شریف سے رابطوں کا علم نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی سعودی اتحاد کی سربراہی سے متعلق وزیر دفاع بیان دے چکے ہیں’ پارلیمنٹ میں بحث بھی ہو چکی ہے اس لئے وہ وزیر دفاع کے بیان پر تبصرہ نہیں کریں گے۔ ادھر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ہم سعودی اتحاد کا حصہ ہیں اور اتحاد کے خدوخال ابھی طے ہونے ہیں۔ جنرل راحیل شریف سعودی اتحاد کی سربراہی کیلئے جارہے ہیں۔ اتحاد میں شامل ممالک کے وزراء دفاع کا اجلاس جلد ہوگا۔
جنرل (ر) راحیل شریف کے اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننے اور پاکستان کے اس اتحاد کا حصہ ہونے کی تصدیق کے بعد پاکستان میں بعض سیاستدان اور ایک مخصوص لابی ایک بار پھر متحرک ہو گئی ہے اور چالیس مسلم ملکوں کے اس اتحاد کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کبھی عراق اور شام کے اس اتحادکا حصہ نہ بننے پر تحفظات کا اظہا رکیا جاتا ہے تو کبھی یہ شوشہ چھوڑا جاتا ہے کہ اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے اور پھر متفقہ طو رپر کوئی فیصلہ کیا جائے۔ یہ ایسی فضول باتیں ہیں جن کا کوئی سرپائوں نہیں ہے۔ یمن جنگ کے مسئلہ پر بھی بعض ناعاقبت اندیش لوگوں کے کہنے پر یہی غلطی کی گئی ‘ پارلیمنٹ میں برادر اسلامی ملک کیخلاف بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئیں اورکئی دن تک سعودی عرب کا میڈیا ٹرائل کیا گیا جس سے نہ صرف ہمارا محسن ملک سعودی عرب بلکہ دیگر کئی اسلامی ملک بھی ناراض ہوئے۔بعد ازاں جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں افواج پاکستان کی کوششوں سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات بہتر ہوئے اور پاکستان باقاعدہ طور پر دہشت گردی کیخلاف بننے والے اس اتحاد کا حصہ بن گیا۔سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اس اتحاد میں شامل کسی ایک ملک نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ اتحاد عراق، شام یا ایران کیخلاف ہے مگر پروپیگنڈا کرنے والے مخصوص ایجنڈے کے تحت بے پر کی اڑا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ صیہونی و یہودی لابی کی طرف سے یمن کے باغیوں کی مددوحمایت کر کے سعودی عرب کو سازش کے تحت اس جنگ میں الجھا یا گیا اور سرزمین حرمین شریفین پر فتنہ تکفیر اور خارجیت پروان چڑھانے کی کوششیں کی گئیںتاکہ اسے عدم استحکام سے دوچار کیا جائے۔ اسی طرح معاشی طور پر بھی سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ ان حالات میں خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خطرناک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں کی مشاورت سے تکفیری گروہوں کی دہشت گردی کچلنے کیلئے اسلامی فوجی اتحادتشکیل دیا تو امریکہ و یورپ سمیت سب کافر قوتوں کو پریشانی لاحق ہو گئی اور اسلامی فوجی اتحاد کو ”اسلامی نیٹو” قرار دیکر گھٹیا اور مذموم پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔ جب تک نیٹو ملک افغانستان اور عراق پر بمباری کر کے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا رہے تھے کسی کو اس دہشت گردی کیخلاف بولنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن جیسے ہی مسلمان ملکوں کا اتحاد قائم ہواسب بیرونی قوتوں نے اسلامی اتحاد کیخلاف ہرزہ سرائی کا آغاز کر رکھا ہے۔اگرچہ اس اتحاد کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ صرف دہشت گردی کو کچلنے کیلئے بنایا گیا ہے مگر دشمنان اسلام کو چونکہ مسلمانوں کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا اور ملکوں کی سلامتی و خودمختاری کیلئے پالیسیاں ترتیب دینا کسی طور برداشت نہیں ہے اس لئے منظم منصوبہ بندی کے تحت اس اتحاد کو متنازعہ بنا کر اس کی حیثیت کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ایران اورعراق اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں اس لئے اس کا کوئی فائدہ نہیں اور جنرل (ر) راحیل شریف کو اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بالکل فضول اعتراض ہے۔
عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوںنے بارود برسا کر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر رکھی ہے وہ اس کی مرضی کے بغیر کس طرح کسی اسلامی اتحاد میں شامل ہو سکتاہے؟ اور ایران اگر اس اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے تواس کیلئے بھی دروازے کھلے ہیں۔اسلام پسند قوتیں تو بار بار یہ کہتی رہی ہیں کہ ایران کو اس اتحاد میں شامل ہونا چاہیے تاکہ اس کے دوسرے مسلمان ملکوںسے الگ تھلگ رہنے کا تاثر ختم ہو سکے۔میں سمجھتاہوں کہ چالیس ملکی فوجی اتحاد کی مخالفت کیلئے سرے سے کوئی بنیاد نہیں ہے محض ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پروپیگنڈا مہم چلائی جارہی ہے جسے کسی صورت درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چند سال قبل تک بعض لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ مسلمان جب تک متحد نہیں ہوں گے وہ بڑی قوتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے یعنی دوسرے لفظوں میں یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ انہیں غیر ملکی قوتوں کی بالادستی تسلیم کر لینی چاہیے مگر اب جبکہ اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دے دیا گیا ہے توا س کیخلاف بھی یہی لوگ بڑھ چڑھ کر اس پروپیگنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں جواغیار کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔
اسلامی اتحادکے قیام کے فوری بعد ہی اسے متنازعہ بنانے کے لئے جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا تھا ،تاہم حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کا یہ فوجی اتحاد کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں، بلکہ مسلمان ملکوں میں پھیلائی جانے والی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہے اور اس کا واضح اظہار کئی مرتبہ اتحاد کی اعلیٰ کمان کی جانب سے کیا جاچکا ہے۔اس وقت جس قدر بھی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے میں سمجھتاہوں کہ اس سب کے پیچھے پاکستان اور سعودی عرب کے مثالی تعلقات کو نقصان پہنچانا اور ان دونوں ملکوں میں باہم دراڑیں پیدا کرنا مقصود ہے۔ امریکہ، یورپ اور دیگر قوتیں کسی طور نہیں چاہتیں کہ مسلمان ملک ان کے کلچ سے نکلیں اور مشترکہ دفاع اور اپنی معاشی منڈیاں تشکیل دیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلم ملک ہمیشہ ان کے باجگزار بن کر رہیں یہی وجہ ہے کہ یہ اتحاد ان کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا اور بیرونی میڈیا مسلسل اس کیخلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں بھی بے پر کی اڑا کر یہی ماحول پیدا کرنے اور عوامی رائے عامہ کو تقسیم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔جنرل (ر) راحیل شریف اپنی مرضی سے اس اتحاد کی کمان نہیں سنبھال رہے بلکہ حکومت اور فوج کی اجازت کے بعد انہوںنے اس ذمہ داری کو قبول کیا ہے۔اس وقت مسلمان ملکوں کو بیرونی قوتوں کی جارحیت کے ساتھ ساتھ اندرونی سطح پر دہشت گردی سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے۔ یہ جنگ کی ایک نئی شکل ہے جو مسلمانوں پر مسلط کی گئی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی میدانوں میں اسلام دشمن قوتوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں، صلیبیوں اور یہودیوں کی جانب سے ہمیشہ مسلم معاشروں ا ور خطوں میں فتنہ تکفیر کو ہوا دی گئی اور کفر کے فتوے لگا کر قتل و غارت کے راستے ہموارکئے گئے۔ آج بھی یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔مسلم معاشروں میں ایسے گروہ کھڑے کر دیئے گئے ہیں جن میں شامل درندے مسجد نبویۖ پر خودکش حملہ اور بیت اللہ شریف پرمیزائل حملوں کی مذموم سازشوں سے بھی بازنہیں آتے اور سرزمین حرمین شریفین پر حملوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔اس لئے تکفیر اور خارجیت کی شکل میں درپیش دہشت گردی کے اس فتنہ کو کچلنا بہت ضروری ہے۔
جب سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد کسی ملک کیخلاف نہیں ہے تو پھر اس کیخلاف مذموم پروپیگنڈا کو کسی صورت درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کے اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کی قیادت سنبھالنے سے سرزمین حرمین شریفین کے تحفظ کی طرح مسلمان ملکوں میں سازش کے تحت پھیلائی جانے والی دہشت گردی کے خاتمے میں بھی ان شاء اللہ بہت مددملے گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ملک دفاع کی طرح اپنی معاشی قوت بھی مضبوط بنائیں اور ڈالرو پائونڈ کی غلامی سے نکل کر اپنی مشترکہ کرنسی تشکیل دیں۔اسی طرح وہ اسلامی ملک جواسلامی فوجی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں، وہ بھی بیرونی سازشوں کے توڑ کیلئے اس اتحاد کا باقاعدہ حصہ بنیں۔ دشمن کے مذموم عزائم ناکا م بنانے کیلئے مسلمانوں کا عملی طور پر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا بہت ضروری ہے۔