اسلامی بینکاری اور نظام معیشت

Islamic Banking

Islamic Banking

تحریر : عابد علی یوسفزئی
یہ بات باعثِ مسرت ہے کہ اسلامی بینکاری پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔یہ اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ اسلامی نظام معیشت ،چودہ صدیا ں گزرنے کے باوجودبھی نہ صرف قابلِ عمل ہے ، بلکہ قابل ِتقلید بھی ہے ۔اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل ِ اطمینان ہے کہ مسلمانوں نے نماز، روزے سے آگے بڑھ کر اب اپنے اجتماعی معاملات کو بھی اسلامی سانچے میں ڈھالنا شروع کر دیا ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال دنیا بھر میں اسلامی بینکاری کا قیام اور اس کی مقبولیت میں مسلسل بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ ارتقاء کے مراحل سے گزرتی اس اسلامی بینکاری سے متعلق متعدد اشکالات و سوالات سامنے آتے رہتے ہیں۔ایک بنیادی نوعیت کا اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ سودی اور اسلامی بینکاری میں کوئی خاص فرق نہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ان دونوں میں فرق صرف نام کا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سوال سراسر غلط فہمی کانتیجہ ہے۔واقعہ یہ ہے کہ سودی اور اسلامی بینکاری میں ہونے والے معاملات کے صرف نتائج پر غور کرکے ان دونوں کو ایک جیسا قرار دے دیاگیاہے۔اگر ان دونوں ں نظاموں میں ہونے والے معاملات کے طریقہ کار کا بغور جائزہ لیا جائے تو غلط فہمی دور ہوجاتی ہے ۔ سرسری نظر سے دیکھا جائے تو سودی اور اسلامی بینکاری میں مشابہت معلو م ہوتی ہے۔ مثلاً سودی بینک اپنے گاہکوں کو قرضہ دیتے ہیں اور اس پر ایک خاص شرح سے سود کماتے ہیں ۔دوسری طرف اسلامی بینک ادھار یا قسطوں پر گھر،گاڑی اور دیگر اشیاء اپنے گاہکوں کو بیچ کر نفع کماتے ہیں۔جو لوگ سودی بینکوں میں اپنا پیسہ رکھواتے ہیں،یہ بینک انہیں اس پیسے پر ایک خاص شرح سے سود مہیا کرتے ہیں۔

اس کے بر عکس غیر سودی بینک بھی پیسے جمع کروانے والوں کو نفع دیتے ہیں ۔ یہ تقریبا اس نفع کے برابر ہوتاہے جو سودی بینک اپنے کلائنٹ کو دیتے ہیں۔مندرجہ بالا غلط فہمی بھی اسی مشابہت کا نتیجہ ہے۔اس غلط فہمی میں مبتلالوگ جب دیکھتے ہیں کہ سودی بینک اپنے گاہک کو مثلاً ایک لاکھ روپے قرضہ دیتاہے اور مقررہ وقت آنے پر ایک لاکھ دس ہزار روپے وصول کرتاہے،دوسری طرف غیر سودی بینک بھی اپنے گاہک کو مثلا ایک لاکھ روپے کی چیز ادھار پر ایک لاکھ دس ہزار روپے میں فروخت کرتا ہے تو ان کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب دونوں بینکوں نے قریب قریب ایک ہی طریقہ کار سے ایک جتنا ہی نفع کمایا ہے تو ان دونوں میں وہ کون سا فرق ہے جس کی وجہ سے ایک کی کمائی حلال اور دوسرے کی کمائی حرام ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ دو مختلف معاملات کے محض نتائج کودیکھتے ہوئے ان پر ایک جیسا حکم لگانا صحیح نہیں ہے۔شریعت میں اس مسئلے کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں۔

مثلاً :فرض کیجئے کہ دو آدمی دو بکرے ذبح کرتے وقت ایک جیسا طریقہ کاراختیار کرتے ہیں۔البتہ ان میں سے ایک ذبح کرتے وقت باقاعدہ بسم اللہ پڑھتا ہے جبکہ دوسرا شخص جان بوجھ کر بسم اللہ پڑھے بغیر ذبح کرتا ہے۔اب اگر صرف نتیجے پر غور کیا جائے تو دونوں بکروں کا گوشت حلال ہونا چاہیے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ جس بکرے کو بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے صرف اس کا گوشت حلال ہے اور جسے جان بوجھ کر اللہ تعالی کا نام لئے بغیر ذبح کیا گیا ہے اس کا گوشت حرام ہے۔ بالکل اسی طرح جب سودی اور اسلامی بینکاری کے طریقہ کار پر غور کیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ ان میں بھی زمین وآسمان کا فرق ہے۔اس فرق پر مستقل کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہاں ان دونوں میں موجود بنیادی فرق بیان کرتے ہیں۔

بینک کی تمویلی سرگرمیوں کو عام طور پر دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔

1۔اثاثہ جاتی پہلو(Asset Side): اس حصے میں بینک اپنے تمویل کار(کلائنٹ )کو مختلف تمویلی سرگرمیاں فراہم کرتا ہے۔ مثلاً:سودی بینک سود پر قرضہ دیتا ہے جبکہ غیر سودی بینک مرابحہ اوراجارہ وغیرہ کے ذریعے مختلف چیزیں ادھار پر عام ریٹ سے کچھ زیادہ قیمت میں دیتا ہے۔چونکہ سودی بینک کی سرگرمیوں کی بنیاد سود پر ہے اس لئے اس کی کمائی حرام ہے۔ غیرسودی بینک کے کاروبار کی بنیاد ایک جائز تجارت پر ہے اس لئے اس کا نفع حلال ہے۔

2۔ذمہ داری والا پہلو(Liability Side): اس حصے میں بینک اپنے ڈپازیٹرز سے رقم وصول کرتا ہے جسے مختلف تمویلی سرگرمیوں میں لگا کر نفع کماتا ہے۔جب ایک آدمی اپنی رقم سودی بینک کے کسی کاروبار میں لگانا چاہتا ہے تو بینک اس سے رقم لے لیتا ہے اور ایک معاہدہ کرتا ہے ۔اس کی رو سے یہ بینک ایک خاص مدت میں ایک خاص شرح سے اس آدمی کو نفع دینے کا پابند ہوتا ہے۔ظاہر ہے یہ ایک خالص سودی معاملہ ہے اس لئے حرام ہے۔اس کے برعکس جب ایک آدمی کسی اسلامی بینک کے کاروبار میں اپنی رقم لگانا چاہے تو یہ بینک اسے اپنے کاروبار میں نفع اور نقصان دونوں کی بنیاد پر شریک کر لیتا ہے۔

اگر بینک کو متعلقہ کاروبار میں نفع ہوتو بینک اور وہ آدمی ،دونوں یہ نفع مقررہ شرح کے مطابق آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ اگر نقصان ہوتو دونوں اپنے اپنے سرمایے کے تناسب سے اسے برداشت کرتے ہیں۔ یہاں بینک اور کلائنٹ میں ہونے والے معاہدے میں کوئی غیرشرعی چیز نہیں ہے۔ اس لئے یہ کاروبار اوراس سے حاصل ہونے والا نفع دونوں جائز ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اسلامی نظامِ معیشت کے پورے اثرات معاشرے پر اسی صورت میں نظر آئیں گے جب غیر سودی بینکاری کی سرگرمیاں مرابحہ اور اجارہ کی بجائے مضاربہ او ر مشارکہ کی بنیاد پر کی جائیں گی جو اصل تمویلی طریقے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرابحہ اور اجارہ وغیرہ پر مبنی سرگرمیاں ناجائز ہیں۔جب ان سرگرمیوں میں شرعی حدود وقیود کا لحاظ رکھا جائے تو ان کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ ان شاء اللہ !وہ دن دور نہیں ،جب اسلامی بینکاری کی سرگرمیاں مضاربہ اور مشارکہ کی بنیاد پر عمل میں لائی جائیں گی ۔تب دنیا اسلامی نظامِ معیشت کی خصوصیات و برکات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرے گی۔

Abid Ali Yousufzai

Abid Ali Yousufzai

تحریر : عابد علی یوسفزئی