تحریر : سلطان حسین اسلامی کیلنڈر کے پہلے مہینے محرم الحرام کا آغاز ہو چکا ہے ہر سال کی طرح اس سال بھی امن و امان کی بحالی کے لیے پریشان انتظامیہ دیگر مہینوں کی بہ نسبت زیادہ متحرک ہو چکی ہے انتظامی معاملات دیکھے جا رہے ہیں’اجلاس منعقد ہو رہے ہیں تمام مسالک کے علماء سے ملاقاتیں کی جا رہی ہیں حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں’ حساس علاقوں اور حساس مقامات کی سیکورٹی بڑھائی جا رہی ہے مزید نفری تعینات کی جا رہی ہے اور فورسز کو الرٹ رکھا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجودانتظامیہ مطمین نہیں انہیں ایک انجانی سی ”کچھ” فکر دامن گیر ہے ایک انجانی سی بے چینی ہے انجانا سا خوف اور پریشانی ہے عام آدمی بھی دیگر دنوں کی بہ نسبت کچھ کچھ بے چینی محسوس کر رہا ہے حالانکہ فورسز کی انتھک جدوجہد اور قربانیوں کی وجہ سے حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں اور امن وامان کی صورتحال اگر زیادہ بہتر نہیں توا بتر بھی نہیں لیکن پھر بھی وہ کچھ فکر مند ضرور ہیں۔
گذشتہ کچھ عرصے سے ہر سال محرم الحرام کے آتے ہی ملک میں دہشتگردی کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے اور ایک انجانا سا خوف محسوس ہوتا ہے اس ماہ میں پورے ملک کی طرح پشاور اور دیگر احساس اضلاع میں بھی خوف کے سائے پہلے سے کچھ زیادہ گہرے ہوجاتے ہیں اور ایک انجانے سے احساس کیساتھ کاروبار زندگی جاری رہتا ہے انتظامی طور پر بھی یہ مہینہ حکومت کیلئے کچھ زیادہ ہی پریشانی کا باعث ہوتا ہے اور کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے سخت حفاظتی انتظامات کرنے پڑتے ہیں جس کیلئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری کی ضرورت پڑتی ہے جو موجودہ دگرگوں امن وامان کی صورتحال کی وجہ سے پہلے ہی مصروف رہتے ہیں۔
محرم کے ابتدائی دس دن اور سات محرم سے دس محرم تک تو پشاور کو باقاعدہ سیل رکھا جاتا ہے اس دوران یوں لگتا ہے جیسے پرانے زمانے کے کسی قلعہ بند شہر میں اس شہر کے باسی رہ رہے ہوں لیکن اتنے سخت انتظامات اور اضافی نفری کی ڈیوٹی کے باوجود افسوسناک بعض اکادکا واقعات رونما ہو ہی جاتے ہیں گذشتہ دو دہائیوں سے اس صوبے کے باسی مختلف مواقعوں پر نشانہ بنتے رہے ہیں ایک طرف جہاں اس صوبے کے امن وامان کو نظر لگ گئی وہاں بعض قوتیں پورے ملک کی طرح اس صوبے اور اس شہر کے امن و امان کو بھی تہہ وبالا کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
Muharram ul Haram
ہمارے کچھ اپنے لوگ بھی انہی کے مقاصد کو آگے بڑھا رہے ہیں اور موجودہ نازک صورتحال کے باوجود تفرقہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے تدارک کیلئے انتظامیہ کوعلما اور معززین شہر سے رجوع کرنا پڑتا ہے کچھ عرصہ سے عام دنوں کی بہ نسبت محرم الحرام کا یہ مہینہ کچھ زیادہ خوف اور پریشانی کی علامت بن چکا ہے اور یہ سب حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے یہ خطہ اور خصوصا یہ شہر فرنٹ لائن بنا ہوا ہے اور اس کے باسیوں کو روز کوئی نہ کوئی غم سہنا پڑتا ہے انہیں اس غم سے کب نجات ملے گی اور کب وہ دن آئے گا۔
جب انہیں اپنے پیاروں سے اس افسوسناک طریقے سے بچھڑنے کا دکھ نہیں دیکھنا پڑے گا یہ کسی کو معلوم نہیں اس صوبے اور اس شہر کے باسیوں کو ‘اعلی حکام کو اور نہ ہی حکمرانوں کو اس کا علم ہے ۔کب یہ خوف دور ہو گا کوئی نہیں جانتا اس صوبے اور اس شہر کے راستے کب غیروں سے ناآشناہوں گے کسی کو نہیں معلوم تاہم اس خوف و دہشت پر ہم کسی حد تک قابو پاسکتے ہیں اپنے پیاروں سے افسوسناک طریقے سے بچھڑنے کے دکھ کو ہم کم ضرور سکتے ہیں اس صوبے اور اس شہر کی فضا کو ہم کسی حد تک پر سکون بناسکتے ہیں اس شہر کے باسیوں کے چہرے پر نظر آنے والی بے یقینی اور بے چینی کو ہم دور کرسکتے ہیں اس کیلئے ہمیں نہ تو کوئی اخراجات کرنے پڑتے ہیں اور نہ ہی ہمیں کسی بیرونی مدد کی ضرورت ہو گی۔
صرف اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا آپس میں پیار ومحبت کا رشتہ مضبوط کرنا ہوگا اور نفاق پیدا کرنے والوں سے دور رہنا ہوگا یہ وقت کی ہی نہیں ہم سب کی بھی ضرورت ہے اسی میں ہم سب کی کامیابی اور بھلائی بھی ہے اس کیلئے ہم سب نے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا دلوں سے کدورتیں اور نفرتیں ختم کرنی ہوں گی اور اس شہر کے باسیوں کو آپس میں لڑانے والوں پر نظر رکھنی ہو گی۔
یہی وہ راستہ ہے جس سے ان سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے اور ان ملک دشمنوں کے عزائم سے بچا جاسکتا ہے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے ہر فرد کا فرض ہے انتظامیہ اور اس کے اعلی حکام کا بھی اس میں اپنا کردار ہے ہم سب کو اپنی اپنی جگہ اس کا احساس کرنا ہو گا۔