افضل ہے کل جہاں سے گھرانہ حسین کا نبیوں کا تاجدار ہے نانا حسین کا اک پل کی تھی بس حکومت یزیدکی صدیاں حسین کی ہیں زمانہ حسین کا
اسلامی کیلنڈر کا آخری مہینہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے تو پہلا مہینہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی یاد، اہل حق کے دل و دماغ کے سفینوں میں تازہ کرتا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ کبھی دین حق کے مقابل خارجی حملے رہے اور کبھی داخلی۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ کلمہ گو بھی اسلامی اصولوں کی دھجیاں بکھیرنے پرآمادہ رہے۔
اسلامی خلافت کے بعد جب بادشاہت کا دور آیا تو حضرت سیدنا امیر معاویہ کے فرزند نے اپنے عظیم والد گرامی کے مشن سے باغی ہوکر اسلامی حکومت کو قیصر وکسریٰ کی طرز پر ملوکیت سے بدلنا چاہا اور اس پر مستزاد یہ کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت چاہی۔ یہی وہ موڑ ہے جو تاریخ اسلامی میں واقعہ کربلا کا سبب بنا۔اسلامی نظام شریعت کے روشن چہرے کو یزید شہنشاہی کے زعم میں مسخ کرنا چاہتا تھا۔جس دین کی اکملیت فخر موجدات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ ہو گئی تھی۔ اسی دین کے اصول حرام و حلال میں یزید اپنے نفس کے فیصلے نافذ کرنا چاہتا تھا۔
اس کے سامنے دو نمونے تھے۔ اسلامی نظام حکومت کا نمونہ اور کسریٰ کے استبداد کا نمونہ۔ اس نے اسلامی نظام حکومت کا نمونہ نہیں اپنایا بلکہ اس نے کسریٰ کی آمریت کو نمونہ عمل بنایا۔ اسی کی تصدیق کیلئے اس نے نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو مجبور کرنا چاہا۔ وہ چاہتا تھا کہ شراب و شباب کی اجازت دیدی جائے۔ زنا و سود کی اجازت دیدی جائے۔ اسلامی تعزیرات میں رد و ترمیم کر دی جائے۔ شریعت کو طبیعت کے مطابق ڈھال لیا جائے اور ان سب کے باوجود امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیعت یزید کرکے یزیدی قوانین کو تسلیم کر لیں۔
Muharram ul Haram
معاملہ اسلامی قوانین کی حفاظت کا تھا، شریعت اسلامی میں یزید تحریف چاہتا تھا، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیعت کر لینا مثال بن جاتا، یزیدی فتنے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا ذریعہ بن جاتا۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مستقبل کیلئے ایک مثال قائم کر دی کہ یزید کی بیعت دراصل باطل کی توثیق ہے۔ اس لئے انہوں نے بیعت یزید سے انکار کرکے دنیا کو صدق و وفا کا وہ درس عظیم دیدیا کہ ہر باطل کے مقابل امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق کی علامت بن چکے ہیں۔ چاہے پھر باطل اسلامی کلمے کے ساتھ آئے یا صیہونیت کی شکل میں آئے، ایک سچے مسلمان کیلئے اسلامی احکام ہی کافی ہیں۔
انہیں کی پیروی میں اس کیلئے نجات ہے۔ کربلا تخت و تاج زیر قدم ہوئے’ مال و دولت ڈھیر ہوئے’ لیکن اسلام کا وہ روشن چہرہ باقی نہیں رہتا جس کیلئے خاتم الانبیا ء محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان راہ خدا میں نچھاور کرکے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتا دیا کہ جب بھی وقت آئے’ اسلام کے مقابل یزیدیت سر ابھارے۔ میری شہادت سے درس لے کر استقلال کی تاریخ رقم کر لینا۔ باطل کے آگے سرنگوں نہ ہونا۔ جان دیدینا’ لیکن یزیدیت کی اطاعت قبول مت کرنا۔ یہ وہ عزم محکم ہے جس کی مثال بن گیا ہے واقعہ کربلا۔ تاریخ انسانی میں ایسے خونیں سانحہ کی مثال نہیں ملتی۔ جان دینا آسان نہیں، عزیزوں کو قربان کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
یہ سب صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور دین حق کی سربلندی کیلئے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبول کیا۔ بتا دیا کہ خودداری یہ نہیں کہ اسلام سے جدا راہ قبول کر لی جائے ،خودداری تو یہ ہے کہ راہ حق پر چلا جائے چاہے اس کیلئے اپنے لہو سے ہی چمن کی آبیاری کرنی پڑے۔ ایک درخشاں تاریخ لکھ دی ہے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے’ لہو سے لکھی گئی اس تاریخ کی سرخی اب بھی ہویدا ہے۔
اب بھی ہر باطل کے مقابل حسینی فکر اسلام کی رگوں کو تازہ خون فراہم کر رہی ہے۔ اسلامی عزم و حمیت کا تقاضا یہی ہے کہ حسینیت سے شجاعت کا درس لیا جائے۔ یہی انسانیت کیلئے امن و آشتی کا مشن ہے۔ یہی خودداری و وفا شعاری کی تمہید ہے۔ یہی حق کا وہ باب ہے جس میں عزم ہے’ جواں مردی ہے’ حوصلہ ہے کہ کٹ سکتا ہے سر خوددار کا پر جھک نہیں سکتا۔
زندگی کوسامان محبت حسین کی زندگی کوارمان الفت حسین کی نجات کوپروان نسبت حسین کی اچھائی کی پہچان عقیدت حسین کی
صدق و وفا کا جو درس کربلا کی زمین سے ملا، اس کے مظاہرے پوری تاریخ اسلامی میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسلاف کی زندگیاں دیکھئے، مجاہدین کی داستانِ شجاعت پڑھیے’ اولیاء اللہ کے دعوتی باپ کھولیے، زبان صداقت کو جنبش دیجئے ،یہی نتیجہ ملے گا کہ ہر دور میں ان اسلاف کرام نے صبروعزیمت کی مثال قائم کرکے چمن اسلام کی آبیاری کی ہے۔ ان کی کدو کاوش میں عزم حسینی نے حرارت پیدا کی ہے۔ کیا ہم تاریخ کے وہ روشن لمحات بھول سکتے ہیں جن میں حسینی تعلیمات سے بھرپور استفادہ ملتا ہے۔ غور کریں طارق نے ساحل اندلس پر اپنی کشتیاں جلا ڈالیں۔ موسیٰ بن نصیر نے ریگزار افریقہ میں کبھی نہ پلٹنے کا عزم کرکے قدم رکھا جو آج پورا براعظم افریقہ اسلامی تعلیمات سے فیض یاب ہے۔ قتیبہ بن مسلم نے روسی کو وہدمن میں اسلام کی سچائی پہنچائی۔ پھر اسی علاقہ بخارا سے امام المحدثین امام بخاری جنم لیتے ہیں۔
Muharram ul Haram
امام اعظم نے اپنے عہد کے ان آمر حکمرانوں کے مقابل حسینی صبر کا مظاہرہ کیا۔ امام شافعی نے ظلم سہہ لیا، لیکن ظالم کی اطاعت نہیں کی۔ غوث الاعظم دستگیر نے شریعت کے مقابل فلسفہ کو قبلہ بنانے والی فکروں کا خاتمہ عزم حسینی سے کیا۔ امام غزالی نے فلاسفہ کی دبریت کو دندان شکن جواب دیا۔ امام اشعری و امام ماتریدی کی دعوت و عزیمت میں بھی عزم حسینی کی ہی جلوہ گر تھی۔ ہند کی دھرتی پر حضرت داتا علی ہجویری کی دعوتی خدمات بھی حسینی مشن کا ہی اظہار ہے۔ عہد اکبری کے مجدد الف ثانی کی کاوشات بھی کربلا کے درس کے نور سے تابندہ ہیں۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ باطل کو ترک کرکے حق پر ڈٹا جائے۔ ہمیشہ دین حق کا علم بلند کیا جائے، چاہے اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔ ہماری دعاہے اللہ تعالیٰ ہمیںاپنامقرب بندہ اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے عظیم قربانیاں دینے والے حضرات صحابہ کرام و اہل بیت کا سچا عاشق بنائے ، اور قیامت کے دن جناب انبیاء کرام، صحابہ کرام ، اہل بیت، اولیاء اللہ ، علمائے حق، مبلغین اسلام کے چاہنے والوں میں اٹھائے(آمین)
Rana Ijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین ای میل: ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033