تحریر : محمد قاسم حمدان اسلامی کانفرنس تنظیم کے آنجہانی ہو نے کے بعد مسلمانوں کی ڈانواں ڈول اقتصادیات کو مضبوط بنیادوں پر کھڑے کرنے اور مسائل کے حل کے لئے متحرک پلیٹ فارم کی ضرورت تھی چنانچہ ترکی کے وزیر اعظم نجم الدین اربکان نے عمارت کھڑی کرنے میں پہلی اینٹ کا کردار ادا کیا ۔انہوں نے 22اکتوبر1997کو تمام مسلم ممالک کے وزرا کو استنبول میں اکٹھا کر کے ڈی ایٹ کی بنیاد رکھی اس تیظیم کو موثر بنانے کے لئے چھ اصول وضع کئے گئے 1جنگ کی بجائے امن 2۔دہرے معیار کی جگہ عدل و انصاف 3۔استعماریت کی جگہ منصفانہ نظام4۔جھڑپوں کی جگہ مذاکرات 5۔برتری کی بجائے مساوات6۔دباو اور پریشر کی جگہ حقوق انسانی اور ڈیموکریسی ۔ ان چھ اصولوں کو وضع کرنے کی اصلی وجہ بیسویں صدی میں جاری رہنے والی جھڑپوں ،استعماریت اور عدم انصاف کو ختم کرتے ہوئے برابری کی سطح پر تعاون کو فروغ دینا تھا اسی طرح قدرتی وسائل ،گنجان آبادی اور اپنے اپنے علاقے کے ساتھ دنیا میں بھی اہم مقام حاصل کرنے اکے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانا اور منصوبوں کو مشترکہ طور پر عملی جامہ پہنانا تھا ۔پہلے اجلاس میں تمام رکن ممالک کے درمیان مختلف امور اور شعبوں کو جن میں ان ممالک کو مہارت حاصل تھی ،میں تقسیم کر دیا گیا۔
اس طرح ترکی کو صنعت وصحت ،مصر کو تجارت،بنگلہ دیش کو دیہاتی ترقیاتی امور،انڈونیشیا کو انسانی وسائل ،ایران کو ٹیلی کمیونی کیشن اور ٹیکنالوجیِِِِِِ ،ملائیشیا کو فنانس،بینکاری اور نجکاری نائیجیریا کو شعبہ توانائی اور پاکستان کو زراعت کا شعبہ دیا گیا ۔ڈی ایٹ کا ہر دو سال بعد حکومتی اور مملکتی سربراہان کا اجلاس منعقد کیا جاتا ہے ۔اس دفعہ تنظیم کا نواں اجلاس ایک بار پھر تر کی میں منعقد کیا گیا ۔ڈی ایٹ ممالک کی مجموعی آبادی ایک ارب چودہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ۔یہ دنیا کی آبادی کا بیس فیصد بنتا ہے جبکہ مسلمانوں کی ساٹھ فیصد آبادی ان آٹھ ممالک میں رہتی ہے ۔عالمی تجارت میں ڈی ایٹ ممالک کا حصہ صرف چھ اعشاریہ سا ت فیصد بنتا ہے جو اتنی بڑی تجارتی منڈی ہوتے ہوئے نہ ہونے کے برابر ہے ۔2015میں ڈی ایٹ ممالک کے درمیان اڑسٹھ ارب ڈالر کی تجارت ہوتی تھی حالانکہ رکن ممالک تیل وگیس سمیت بیش بہا وسائل سے مالا مال ہیں۔
اس وقت ڈی ایٹ کی بیسویں سالگرہ منائی جا رہی ہے لیکن حقائق یہ ہیں کہ تنظیم اپنے مقاصد میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائیجنگ کی بجائے امن کا ایجنڈا ایک خواب سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔شام کی جنگ کی بھڑکتی آگ کی چنگاریاںpkkکے ذریعے چالیس ہزار سے زاہدترکوں کی جان لے چکی ہیں ۔ایران میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے سبب ترکی ،پاکستان اور ایران میں تجارت کچھوے کی چال چل رہی ہے ۔پاکستان جو گذشتہ دورانیے میں تنظیم کا صدر تھا کی تجارت کا اونٹ کس کروٹ لیٹتا رہا ، یہ بھی جان لیں،ملائیشیا کے ساتھ پاککی تجارت سب سے زیادہ تین ارب ڈالر تک تھی ، بنگلہ دیش کے سا تھ تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں ہے ،پاکستانی ٹیکسٹائل کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری بنگلہ دیش میں ہی ہے ۔بنگلہ دیش کو سینتیس ممالک میں ڈیوٹی فری ٹیکسٹائل کوٹہ فروخت کرنے کی جو سہولت حاصل ہے اس سے پاکستانی سرمایہ کار بھی مستفید ہو رہا ہے لیکن صرف پنجاب میں اس صنعت سے وابستہ دو لاکھ خاندانوں کا چولھا بجھ گیا ہے ،مصر کی سرمایا کاری نہ ہو نے کے برابر ہے کیونکہ اس کی دلچسپی کا محور عر ب ممالک ہیں ۔پاکستا اور انڈونیشیا کے مابین تجارت کا حجم محض ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر تھا ۔نائیجیریا سے پاکستان کی تجارت ساٹھ ملین ڈالر سے بھی کم ہے حالانکہ آبادی اور تیل کی پیداوار کے لحاظ سے نائیجیریا سب سے بڑا افریقی ملک اور ساوتھ افریقہ کے بعد دوسری بڑی اقتصادی قوت ہے ۔پاکستان اورترکی محبت کے لازوال رشتے میں بندھے ہیں ترکی اور پاکستان میں تجار ت روز بروز بڑھ رہی ہے ۔میٹرو بس سروس اور atak.t.129 ہیلی کاپڑز کی خریداری تازہ مثال ہیں ۔علاوہ ازیں ترکی نے معروف ا دیب ڈاکٹر خلیل طوقار کی سر براہی میںپاک ترک کلچرل سینٹر قائم کیا ہے۔
پاکستان کے دور صدارت سے قبل تجارت کا حجم بیس بلین ڈالر سالانہ تھا جو کہ موجودہ دور میں 150بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جب پاکستان کو ڈی ایٹ کی سربراہی سونپی گئی یہ وہ وقت تھا جب پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا ہر طرف خودکش بمباروں کا خوف تھا ۔پرائی جنگ میں ڈو مور کا پھندا اور نان نیٹو اتحادی کی صورت میں پاکستان کو ستر ہزار سول وفوجی جوانوں کی قربانی دینا پڑی ۔ہماری معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا ،ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا ہمارا نقصان ہوا ۔تجارت تو دور ہمارے کھیل کے میدان تک ویران ہو گئے ۔اس کے باوجود پاکستان کی کوششوں سے تنظیم ممالک میں تجارت بڑھی ،پاکستان نے ڈی ایٹ کو یو این میں مبصر کا درجہ دلایا اور رکن ملکوں کے درمیان تاجروں کے لئے ویزہ کے اجراء کے طریقہ کار میں سہولیات اور کسٹم ڈیوٹی میں کمی کے معاہدے سمیت اہم کامیابیاں حاصل کیں۔دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان اور ترکی کی مشکلات تقریبا ایک سی ہیں۔
پاکستان کے ایک طرف دہشت گردی کا ڈا ن بھارت ہے جو کبھی غلطی سے بھی پاکستان کی خیر خواہی کا رسک نہیں لیتا ۔کشمیر میں اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے کون واقف نہیں لیکن عالمی طاقتوں کی منافقت سے بھارت کی جارحیت عروج پر ہے ۔پاکستان کے پہلو میں اگر 50سال سے جنگ میں جھلستا افغانستان ہے تو ترکی کے ساتھ شام میں جنگ کی تباہ کاریاں ہیں، شام میں کرد تنظیم وائی پی جی کو امریکہ جدید ترین اسلحہ دے رہا ہے جو pkkکے ذریعے تر کی کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے ،پاکستان نے پچاس برس تک تیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کی اس وقت ترکیمیںتقریبا تیس لاکھ شامیمہمان ہیں ۔اس کے علاوہ ترکی بنگلہ دیش میں آئے پانچ لاکھ اراکانی مسلمانوں کی آباد کاری میں تمام اخراجات برداشت کر رہا ہے۔
پاکستان کے بعد اب تنظیم کی صدارت پھر ترکی کو منتقل ہو گئی ہے ۔ اربکان تو اب اس دنیا میں نہیں البتہ ان کے ویژن کو حقیقتکا روپ دینے والے جدید ترکی کے معمار صدر طیب اردوان موجود ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اردوان ڈی ایٹ کو جادوئی کامیابیاں دلا سکیں گے بلاشبہ وہ ایکمخلص ا ور باہمت سحر انگیز شخصیت ہیں لیکن ڈی ایٹ کو کامیاب پلیٹ فارم بنانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام ملک ان کا بھر پور ساتھ دیں ۔اردوان کا خواب ہے کہ ڈی ایٹ کو پھیلا کر ڈی۔ 20تک وسعت دی جائے اور ان کا دھماکہ اعلان جس نے عالمی ساہوکاروں کی نیند اڑا دی کہ رکن ممالک اپنی تجارت کو ڈالر کی بجائے اپنی کرنسی میں کریں اس کو عالمی اصطلاح میں کرنسی سوئپ کہتے ہیں ۔کرنسی سوئپ سے ایران سب سے زیادہ فاہدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ عالمی سطح پر وہ ڈالر اور یورو میں تجارت نہیں کر سکتا لیکن اپنی کرنسی میں رکن ممالک سے تجارت سے روکنے کا کوئی عالمی قانون نہیں ہے ۔پاکستان ایران گیس معاہدہ بھی پابندیوں کی وجہ سے لٹک ہا ہے لیکن بھارت ایران سے تیل بھی خریدرہا ہے اور امریکہ کے سب سے بڑے دشمن شمالی کوریا کا سفارت خانہ بھی بھارت میں موجود ہے۔
طیب اردوان نے کانفرنس سے خطاب میںواضح کیاکہ دنیا کو پانچ ممالک کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔عالمی امن خوشحالی اور استحکام کے لئے ہمیں ڈی ایٹ کے تحت تمام شعبوں میں تعاون کو مضبوط کرنا ہو گا ۔عالم سطح پر ایک طبقہ جان بوجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے نتھی کر رہا ہے اور ان ہی ممالک کی حمایت اور پشت پناہی سے بوکو حرام،داعش،فیتو اور الشباب جیسی دہشتگرد تنظیمیں بنیں اور انہی دہشت گرد تنظیموں کے قتل عام کو اسلام فوبیا کا روپ دیتے ہوئے پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان چین راہداری منصوبہ جہاں ان دونوں ملکوں کے لئے ترقی کا نیا باب ہے وہیں تنظیم کے رکن ممالک کے لئے تجارت کو فروغ دینے کی شاہراہ ہے ۔اس وقت پاکستان کاعسکری سامان دنیا میں اپنی پہچان بنا چکا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے ہتھیاروں کا مقصد لڑاو اور ہتھیار بہچو نہیں بلکہ ہمارا ماٹو ہتھیار برائے امن ہیں ۔پاکستان کو چاہیے کہ رکن ممالک میں اپنے سامان حرب کی نمائشیں منعقد کرے تاکہ رکن ممالک اس کی منڈی بن جائیں۔