تحریر: محمد عرفان چودھری چہرے پر مایوسی آنکھوں میں خالی پن لئے بازار والی مسجد پر نظریں مرکوز کئے بوسیدہ پھٹے پر دوزانوں بیٹھا شیدا آج پریشان معلوم ہو رہا تھا راستے سے گزرتا شیدے کو ایسی حالت میں دیکھ کر رہا نہ گیا سیدھا شیدے کے پہلو میں جا بیٹھا جس کی اس کو خبر تک نہ ہوئی کچھ لمحے سکتے میں بیٹھے ہوئے شیدے کو تکتا رہا پھر آخر جھنجھوڑنا ہی پڑا شیدا چونک گیا صاحب جی بڑے دنوں بعد نظر آئے ہو شیدے میری چھوڑ یہ بتائو آج بڑے اُداس لگ رہے ہو اور کب سے مسجد کو دیکھ رہے ہو کیا بات ہے شیدے نے آنکھوں میں آتے ہوئے آنسو کو روکتے ہوئے کہا کہ پڑوس کا لڑکا بتا رہا تھا کہ ہمارے دین کے مرکز سعودی عرب میں فیشن شو کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جہاں ہماری مائیں بہنیں آدھ ننگے لباس پہن کر لوگوں کے سامنے اپنے جلوے دکھائیں گی وہ بھی اس جگہ پر جہاں پر جانا ہر مسلمان کی خواہش ہے ایسی جگہ جہاں ہمارے بزرگان دین نے اسلام کی سر بلندی کے لئے سر تک کٹوا دیے جہاں سرکار دو عالم ۖ نے دین اسلام کی بنیاد رکھی جہاں پر جنتی پتھر نے اللہ کے گھر کی تعمیر کے لئے اپنا حصہ ڈالا جہاں پر ابراہیم نے اپنے بیٹے تک کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا اور تو اور وہ یہ بتا رہا تھا کہ عرب ملک ابو ظہبی میں پہلے مندر کی بنیاد رکھ دی گئی ہیں جہاں پر لوگ بتوں کی پوجا کیا کریں گے۔
شیدے کی آنکھوں میں ضبط کئے ہوئے آنسوئوں کی جگہ غصے اور نفرت کے آثار نمایاں نظر آنے لگے تھے آواز میں چڑھائو لاتے ہوئے وہ بولا صاحب جی یہ وہ عرب سر زمین ہے جہاں پر ہمارے دادا ابراہیم نے بتوں کے ٹکڑے کئے تھے اور آج انہی کی نفی کرتے ہوئے ان دشمنوں کے ساتھ مل کر پچپن ہزار مربع میٹر محیط پر مندر تعمیر کیا جا رہا ہے جن دشمنوں نے ہندوستان میں بابری مسجد کو شہید کیا تھا وہ دشمن جن سے بابا قائد نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہمیں پاکستان لے کر دیا تھا کیونکہ وہاں مسلمان آزادی کے ساتھ اپنی عبادات نہیں کر پاتے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی وہاں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ جاری ہے نا وہاں گائے کی قربانی کرنے کی آزادی ہے نا وہاں آزادی سے نماز پڑھی جا سکتی ہے اور وہی دشمن کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر جبر مسلسل کر رہے ہیں اور عرب میں انُہی ہندو دشمنوں کے لئے مندر تعمیر کیا جارہا ہے کیا ان عرب ملکوں کو اپنے مسلمان بھائی نظر نہیں آتے کیا انہیں فلسطین، شام، ایران، عراق کی جنگ نظر نہیں آتی جس جنگ میں لاکھوں بے گناہ بچوں، بوڑھوں ، عورتوں کو شہید کر دیا گیا عورتوں کی عصمت دری کی گئی کیا ان عرب ملکوں کو برما کے مظالم نظر نہیں آتے جنہوں نے روہنگیا کے مسلمانوں کو بت پرستوں کی مدد سے قتل کر دیا ؟
قارئین کرام یہ تمام باتیں ایک سادہ لوح انسان کر رہا تھا یہ اس کے وہ جذبات تھے جو دین اسلام کے ساتھ جڑے ہوئے تھے جو شائد پھٹے پر بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں ایسا نا ہو کہ بازار والی مسجد میں اذان کی آواز کی بجائے کل کو مندر کی گھنٹیاں بج رہی ہوں قرآن پاک کی تلاوت کی بجائے بھجن کی آوازیں بلند ہورہی ہوں کیونکہ ہمارے ملک پاکستان میں بھی بڑی حد تک اسلام سے دوری کے کام تواتر سے ہونا شروع ہو گئے ہیں نت نئی بدعتیں سامنے آنا شروع ہو گئیں ہیں جس کی تازہ مثال پاکستان کی متنازعہ شخصیت عاصمہ جہانگیر کی وفات کے موقع پر دیکھی گئی جس میں عورتوں نے نمازجنازہ میں شرکت کی جبکہ اہل علم اور علماء حضرات کے مطابق عورتیںعلیحدہ سے تو نماز جنازہ ادا کر سکتی ہیں مگر مردوں کے شانہ بشانہ نماز جنازہ ادا کرنا مکروہ و ناجائز ہے ۔ عرب اور دوسرے اسلامی ممالک میں اس طرح کی بدعتیں شروع ہونا جہاں نام نہاد روشن خیالی کی بنیاد پر عورت کو گھر سے نکال کر بازار کی زینت بنا دیا گیا ہے جہاں عورت اپنے گھر کی چاردیواری میں رہ کر گھر کے کام کرنے کو معیوب سمجھتی ہو جہاں وہی عورت بن سنور کر گلے سے ڈوپٹے تک اتار کر غیر مردوں کے سامنے پیش ہوکر چند ٹکوں کے عوض اُن کی خدمت کرنے کو آزادی تصور کرتی ہو جہاں عورت فیشن کے نام پر جینز شرٹس پہن کر اپنے پوشیدہ اعضاء کو نمایاں کر کے تشہیرکرنے کو ترجیح دے جہاں تدریسی اداروں میں مخلوط محفلوں کا انعقاد ہو جہاں ناچ گانے پر ٹھمکے لگا کر محفلوں کو چار چاند لگائے جائیں وہاں مندروں کی تعمیر ہونا عام سمجھنا چاہئے دل کو بڑا کرتے ہوئے بت کدوں کی اجازت دے دینی چاہئے گھرمیں نا سہی باہر ہی ٹھیک عورت سروس تو مہیا کر ہی رہی ہے۔
برقع میں گھٹن محسوس ہوتی ہو تو اسے اتار دینے میں سکون محسوس کرنا چاہئے ڈوپٹہ پہن کر عورت سیانی بوڑھیا سی لگتی ہے تو ڈوپٹہ اتار پھینکنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ عورت نے جوانی بھی تو دکھانی ہے کیونکہ جوانی پھر نہیں آنی پوشیدہ اعضاء نمایاں کرنے میں حرج نہیں ہونا چاہئے کہ انسان پیدا بھی تو ننگا ہی ہوتا ہے اور جنت میں بھی ننگا ہی تھا کیا ہوا کہ اعضاء نمایاں ہونے پر جنت سے نکال دیا گیا اُس میں بھی تو سارا قصور شیطان ہی کا تھا اور دنیا میں بھی تو شیطان ہی بہکا رہا ہے انسان تو خطاء کا پتلا ہے خطا ء نہیں کرے گا تو کیا کرے گا خیر یہ سارے کام تو ہو کے ہی رہیں گے کیونکہ آقاۖ نے ارشاد فرمایا کہ جب تک یہ نشانیاں پوری نا ہو جائیں قیامت نا ہو گی اُن میں سے چند ایک یہ ہیں کہ قیامت اُس وقت تک نا آئے گی جب تک کہ میری امت تمام باتوں میں اگلی امتوں کے بالکل اسی طرح برابر نہ ہو جائے گی جس طرح ایک بالشت ،بالشت کے برابر اور ایک گز ، گز کے برابر ہوتا ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہۖ کیا روم اور فارس کی طرح؟آپۖ نے فرمایا کیا ان کے علاوہ اور کوئی ہیں۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ جب لونڈی اپنے سردار کو جنے اور اور جب سیاہ اونٹوں کو چرانے والے عمارتوں میں رہنے لگیں تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے۔حضرت ثوبان روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے کئی قبائل مشرکین کے ساتھ الحاق نہیں کر یں گے اور بتوں کی پوجا نہیں کریں گے۔حضرت حزیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ آپۖ نے فرمایا کہ اس خداا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک نہ آئے گی یہاں تک کہ تم اپنے امام کو قتل کرو اپنی تلواروں سے لڑائی کرو اور تمہارے دنیاوی امور شریر لوگوں کے ہاتھوں میں آ جائیں ۔ قارئین کرام اگر ایک سادہ لوح شیدا بازار والی مسجد کے سامنے بیٹھ کر آنے والے وقت کے متعلق فکر مند ہوسکتا ہے تو ہم ملت اسلامیہ دین اسلام کی سر بلندی اور حفاظت کے لئے فکر مند کیوں نہیں ہو سکتے ہمیں یکجا ہونا ہوگا کیونکہ آپۖ کا ایک ایک کہا گیا لفظ حق ہے اور یقیناََ ہم سب فتنے کے دور میں داخل ہو چکے ہیں دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس فتنے کے دور میں محفوط رکھے اور ہم ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے اعمال درست کر لیں اور اللہ ہمیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے ہماری بہنوں، بیٹیوں کی عصمت محفوظ رکھے اور سب کو دین اسلام کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ہدائت نصیب ہو آمین یا رب العالمین!