اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی اسلامی ممالک کی اتحادی فوج کے وفد کے ساتھ آمد پر ملک کے کئی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں اور کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ آمد ایران مخالف اتحاد کی تشکیل کا حصہ ہو سکتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق وفد اسلام آباد پہنچا ہے اور یہ منگل تک ملک میں قیام کرے گا۔ دورانِ قیام وفد نے ملکی فوج کے سربراہ سے ملاقات کی ہے۔ یہ وفد پاکستان کی سیاسی قیادت سے بھی ملاقات کرے گا۔ یہ ملاقاتیں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ سے پہلے ہو رہی ہے، اس لیے ملک کے کئی حلقے اس کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وفد کی آمد کا تعلق خطے میں ہونے والی ممکنہ ایران مخالف سرگرمیوں سے ہو سکتا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سنٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر پروفیسر سرفراز خان کے خیال میں سعودی عرب دنیا بھر میں مختلف ممالک کو ایران کی مخالفت کرنے پر راضی کر رہا ہے اور یہ دورہ بھی اسی مہم کا حصہ ہو سکتا ہے: ’’سعودی عرب کی ایران کے ساتھ سخت مخاصمت ہے۔ وہ یمن، شام، عراق اور لبنان میں ایران کے خلاف کام کر رہا ہے۔ اپنے ملک میں بھی شیعہ آبادی کے خلاف سخت اقدامات کر رہا ہے اور بحرین میں تو اس نے فوج بھی استعمال کی۔ اب قوی امکان ہے کہ وہ پاکستان کو بھی قائل کرے گا کہ وہ ایران مخالف اتحاد کا حصہ بنے۔‘‘
وفد کی آمد سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ سے پہلے ہوئی ہے، اس لیے ملک کے کئی حلقے اس کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔
واضح رہے نواز شریف کے دورِ حکومت میں پاکستان نے یمن کے مسئلے پر سعودی عرب سے اتحاد کرنے سے معذوری ظاہر کر لی تھی اورپارلیمنٹ نے ایک مشترکہ قرار داد کے ذریعے یمن میں لڑائی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ نون لیگ کے ایک رہنما نے تو یہ بھی کہا تھا کہ سعودی ناراضی بھی نواز شریف کے زوال کا ایک سبب تھی۔
تاہم پروفیسر سرفراز خان کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ کی اس قرار داد کے باوجود کچھ عناصر پاکستان کو ایران مخالف سرگرمیوں کا حصہ بنانا چاہتے ہیں: ’’سعودی عرب نے پاکستان میں وہابی اسلام کو پھیلانے کے لیے مدارس قائم کیے۔ پاکستان سے کچھ لوگ شام لڑنے کے لیے بھی گئے تھے۔ یہ طبقہ اور کچھ ریاستی عناصر چاہتے ہیں کہ پاکستان ایران اور سعوی عرب کے درمیان ہونے والی مخاصمت کا حصہ بنے لیکن عوام کی اکثریت اس کے خلاف ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان کو اس وقت سخت معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک کو فوری طور پر تقریباﹰ بارہ بلین ڈالرز چاہییں۔ ریاض اور ابوظہبی نے اسلام آباد کو حال ہی میں اربوں ڈالرز دیے ہیں ۔ اس کے علاوہ ملک میں سرمایہ کاری کے وعدے بھی کیے گئے ہیں۔ لیکن کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سرمایہ کاری کے چکر میں ہمیں اپنے سماجی ڈھانچے کو تباہی کی طرف نہیں لے کر جا نا چاہیے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کے خیال میں کسی بھی جنگ کا حصہ بننے سے پاکستان کا سماجی ڈھانچہ تباہ ہوجائے گا: ’’ایک طرف سعودی عرب گوادر میں سرمایہ کاری کر کے ایران کی سرحد کے قریب ہونا چاہتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد اسلامی ممالک کا اتحاد یہاں اپنی فوجیں بھیج سکتا ہے، جس کی باگ دوڑ سعودی عرب کے پاس ہوگی۔ تو ایران کو دونوں طرف سے گھیرا جائے گا۔ ہمیں ان تمام معاملات سے دور رہنا چاہیے کیونکہ ہماری سعودی نواز پالیسی کی وجہ سے تہران نئی دہلی کے قریب ہو رہا ہے، جس کا ہمیں نقصان ہوگا۔‘‘
لیکن عسکری حلقوں کا دفاع کرنے والے تجزیہ نگار ان شکوک وشبہات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں پاکستان ایران کے خلاف کبھی نہیں جا سکتا: ’’پاکستانی پارلیمنٹ یمن میں فوج بھیجنے کے خلاف قرار داد منظور کر چکی ہے تو اس دورے کا تعلق ایران یا یمن سے قطعی طور پر نہیں ہے۔ میرے پاس ٹھو س معلومات نہیں ہیں لیکن میرے اندازے کے مطابق سعودی عرب انسدادِ دہشت گردی میں جو ہمیں مہارت حاصل ہے، اس سے استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ ممکنہ طور پر وہ چاہتا ہے کہ اس کے افسران کو پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے مراکز میں تربیت دی جائے یا آرمی کی تربیتی اکیڈیمیز سے استفادہ کیا جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امریکی انخلاء کے بعد خلا ء پیدا ہوگا: ’’ممکنہ طور پر افغانستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ افغان آرمی حالات کو قابو میں نہیں رکھ سکتی۔ طالبان نے داعش اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے خلاف بات کی ہے کہ وہ ان کو اپنی سر زمین استعمال نہیں کرنے دیں گے لیکن طالبان کی طاقت پر بھی سوال ہے۔ تو میرے خیال میں اس بات کا امکان ہے کہ اسلامی اتحاد کی فوج کو وہاں پر متعین کیا جائے تاکہ افغانستان میں استحکام رہے اور امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا نہ ہو۔‘‘