تحریر :رائو عمران سلیمان ترقی کے اس تیز رفتار دور میں ہر ملک اپنا ہدف پانے کو بے چین نظر آ رہا ہے ،یہ ایک ایسی خواہش ہے کہ جس کے باعث دنیا اب منفی انداز میں سوچنے پر مجبور ہے یہ ہی حال اسلامی ممالک کا ہے جس میں مذہب کو مشکلات سے نکالنے والے بہت کم اور اسے فسادات میں دیکھنے والے زیادہ ہوچکے ہیں،امریکی صدر کا کہنا ہے امریکا نے پندرہ سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر دیکر بے وقوفی کی ہے اور یہ کہ پاکستان نے بدلے میں جھوٹ اور دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز ٹویٹ نے اس وقت پاکستان کی سول وعسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیاہے ، امریکی صدر ٹرمپ کی اسلام دشمنی روایات کا کسے علم نہیں ہے، صدارت کی کرسی ملنے سے قبل ہی ٹرمپ کی اسلام مخالف ہرزہ سرائیا ں مشہور رہی ہیں اب اس میں اس قدر حیران ہونے والی کیا بات ہے کہ اس ٹویٹ سے یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ اچانک امریکی صدر ٹرمپ کو کیا ہوا ؟۔کیا یہ ہمیں پہلے سے معلوم نہیں ہے کہ امریکا پاکستان کے لیے کیا جزبات رکھتاہے ؟پاکستانی حکومت کو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکا اس وقت اپنی نئی پالیسیوں کے ساتھ جس انداز میں اسلامی ممالک کی جانب بڑھ کر ان کی سا لمیت کو نقصان پہنچارہا ہے وہ ایسا کیوں کررہاہے ؟ اور کیا مضائحقہ ہے کہ امریکا کے قدم پاکستان کی جانب نہ بڑھ سکیں ؟،جس وقت امریکا کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ بنایا جارہا تھا اس وقت تمام اسلامی ممالک کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا بنتا تھا، مگر اس اہم معاملے میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے اسلامی بھائیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ہلہ گلہ کیا گیا۔
خوب آنسو بہائے گئے اور جزباتی بیانات کی بھرمار ہوئی اس سلسلے میں میڈیا میں آنے کے لیے بہت سی مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے ریلیاں بھی نکالی اوردل کھول کر منہ زبانی امریکا کو گالیاں بھی نکالی گئی ،مگر پھر ہم نے دیکھا کہ یہ ہی سڑکوں پر اور سوشل میڈیا پر واویلا مچانے والے تھک ہار کر بیٹھ گئے ،اور اسلام کا دشمن ہمارا راستہ تکتا رہا کہ کب آئینگے وہ دین محمدی کے رکھوالے اور آکر مقبوضہ بیت المقد س کو ہم سے چھڑالینگے ،مگر ایسا نہ ہوا۔آج ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی میڈیا اور سول قیادت امریکی صدر کے ٹویٹ خاصی پریشان دکھائی دے رہی ہے جبکہ اس قدر پریشانی تو انہیں اس وقت بھی نہ ہوئی تھی جب امریکا بیت المدس کا تحفہ یہودیوں کو پیش کررہاتھا،اس عمل سے یہ ہی لگتاہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک کو صرف اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس وقت یہودیوں کا ایک منعظم گروہ پہلے سے ہی بکھرے مسلمانوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح مزید بکھیرنے میں مصروف ہے میں یہ نہیں کہتا کہ سب ہی ایسے ہیں مگر جن لوگوں کو مقبوضہ بیت المقدس سے حقیقی عقیدت ہے وہ بیچارے اکیلے کر بھی کیا سکتے ہیں کیونکہ مسلم ممالک کے یہ حکمران امریکی اور اپنے اپنے اقتدار سے جڑے مفادات میں اس قدر گم ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کے ساتھ آہستہ آہستہ اب کیا ہونے والا ہے یہ بات اسلام دشمنوں کے لیے کسی حد تک تسکین کا باعث بن رہی ہے کہ جوں جوں وقت گزر رہاہے یروشلم کا معاملہ بھی ٹھنڈا پڑرہاہے اور یہ پیغام بھی عام ہورہاہے کہ مسلم امہ یروشلم کے اس قدر بڑے سنگین سانحے کے باوجود بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہوسکی ہے۔
لہذا دشمن یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا چکاہے کہ جو مسلم ممالک اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے اکھٹے نہ ہوسکے وہ بھلا اپنے اپنے ملکوں اور اس کی عوام کو بچانے کے لیے کس طرح سے یکجا ہوسکتے ہیں ؟ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر کا حالیہ ٹویٹ بھی انہیں سوچوں کی عکاس ہے کہ ٹرمپ کے حوصلے اب اس قدر بلند ہے کہ وہ الزام تراشیوں کے بعد اب دھمکیوں پر اترآیاہے آج اگر امت مسلمہ یروشلم کی آزادی کے لیے ایک صفحے پر جمع ہوتی تو اسلام دشمنوں کی کیا مجال ہوسکتی ہے کہ وہ اسلامی ممالک کی جانب میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ افغان جنگ میں ناکامی کے باعث اس وقت سخت مایوسی کا شکار ہے وہ اس کا سارا الزام پاکستان پر لگادینا چاہتا ہے ۔جبکہ گزشتہ تین دہائیو ں سے پاکستان امریکا کی دہشت گردی کے نام پر ہر طرح سے مدد کررہاہے ،جن میں پاکستانی فضائی حدود کا استعمال ،نیٹو سپلائی اور فوجی اڈوں کا استعمال شامل ہے جبکہ امریکا اب ان سب باتوں کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے بلکہ وہ اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتا کہ پاکستان نے امریکی جنگ میں ستر ہزار سے زائد جانوں کا نزرانہ پیش کیا ہے۔
آج امریکی صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کا مناسب جواب دینے کے لیے حکومتی سطح پر سوچ بچار ہورہی ہے یقینا عوام کے غم وغصے کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے لیے امریکی صدر کو گرما گرم جواب دیا جاسکتا ہے ،کیا ہم امید رکھیں کہ ٹویٹ کا جواب ٹویٹ سے دینے کی بجائے پاکستان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امریکی امداد اور پاکستان میں قائم اس کے سفارتخانوں کو بند کردیگا اور یہ کہے گا کہ اب پاکستان امریکی جنگ سے خود کو آزاد کرتاہے ؟۔ شاید پاکستان کی قیادت کے لیے یہ سب کچھ کہنا اس قدرآسان نہ ہوگا،پاکستان امریکا کے اس ابہام کو دور کرنا چاہتا ہے تو اسے بیانات سے جواب دینے کی بجائے اس سے صاف بات کرنا ہوگی۔
پاکستان کو بتانا ہوگا کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں امریکا نے نہیں بلکہ پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیکر بے وقوفی کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میری پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں اور ان کے رہنمائوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے ساتھ مذہب کی حفاظت کو بھی عزیز رکھیں اور سب سے پہلے مقبوضہ بیت المقد س کو صہیونی طاقتو ں سے آزاد کروایا جائے میرا دعویٰ ہے کہ جب ہم اللہ کے بنائے گئے ان مقامات مقدسہ کی حفاظت کرینگے تو یقینااللہ بھی ہمارے گھروں کی حفاظت کریگا،میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ساتھ یہ سب کچھ مذہب سے دوری کے سبب ہی ہورہا ہے ہم لوگ اب نام کے مسلمان ہی رہ گئے ہیں ہمارے اندر مغربی کلچر اور ریموٹ کنٹرول کی عادت اس قدر سرایت کرگئی ہے کہ جس کے باعث ہمارا ضمیر مردہ ہوچکاہے ہم کلمہ تو پڑھتے ہیں مگر اس کلمے کی حفاظت کرنا نہیں جانتے ہم نماز تو پڑھتے ہیں مگر ہمارا ذہن دین اسلام کی حفاظت کے قابل نہیں رہاہے،ہم عقیدہ توحیدکے عملی معاملات سے بلکل ہی لاعلم ہوچکے ہیں ہمیں عیش وعشرت کی زندگیاں اچھی لگنے لگی ہیں اپنے ارد گرد دھڑادھڑ اموات کو دیکھ کر سنبھلنے کی بجائے ہم بے حس ہوتے جارہے ہیں، ایسا لگتا ہے ہم سب اپنے اپنے مفادات میں گھر چکے ہیں اوپر سے لیکر نیچے تک بس ایک ہی فکر ہے کہ اپنے آج اور کل کے لیے کچھ جمع کرلیا جائے چاہے وہ مال بنانے کا راستہ حق کا ہو یا وہ راستہ برائی پر چلتا ہو،اللہ ہم سب کو دین واسلام کی حفاظت کے لیے ایک ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔