حیرت کی بات ہے کہ جس امت کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے انسانوں کو غلامی سے نجات دلوائی انسان کو اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز ہونے کی نوید سنائی آج اس ہادی رہنما صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اس حقیقت کو جاننے کے لیے مجھے قبل اسلام تاریخ انسانی کو پڑھنا پڑھا اور افسوس ہو ا یہ جان کر کہ ہم ”امت”نہیں رہے فرقوں ‘ذاتوں اور اونچ نیچ کے امتیازات میں بٹ کر کب کے تقسیم ہو چکے ہیں آج مسلمانوں پر زوال کی وجہ بھی یہی ہے یہ حتمی حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو اہل عرب معاشرتی قباحتوں میں غلطاں اور اعلیٰ وارفع اخلاقی اقدار سے محروم تھے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت اللعالمین ہیں اس لیے سلگتی ہوئی انسانیت کو عالمگیر امن و سلامتی کا پیغام دیا عزت کا معیار رنگ’زبان ‘نسل اور دولت نہیں بلکہ پاکیزہ کردار اطوار اور حسین رویے ہیں جو دنیا و آخرت کے لیے نسخہ کیمیا سے کم نہیں وجہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحوش عربوں کی انقلابی خطوط پر تربیت کی ان کے فکر وشعور کو پیدا کرکے زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔
تہذیب و تمدن سے آشنا اور قیادت کی قبا عطا کی عالمگیر اخوت ومحبت اتحاد یگانگت اور روادای کے جذبوں کو فروغ دیا زندگی سے مایوس اور خوف زدہ انسانوں کو نئے عزم سے جینے کا احساس دلایا اپنے تدبر اور حکمت ودانش سے مدینے میں ایسی فلاحی ریاست قائم کی کہ دکھی انسانیت نے سکھ کا سانس لیا دکھ تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانے کے بعد پوری دنیا میں عزت کا معیار پھر رنگ’زبان ‘نسل اور دولت ٹھہرے ہوس اقتدار کی خاطر مسلمان بادشاہوں نے اسلام کی آڑ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انقلابی افکار و نظریات اور تعلیمات کو یکسر چھوڑ دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ اسلام کے اوراق خون سے آج بھی تر نظر آتے ہیں جو کہ تاریخی المیہ ہے مختصر اسلام سے پہلے انسان جہالتوں کے اندھیروں میں ڈوبا ہو اتھا اس زمانے میں حق ”طاقت”کا نام تھا اس لیے ہر طاقت ور ہر قسم کے حقوق کا مالک ہوتا تھا غلامی کا قانون مشہور ومعروف تھا ایک سوال کہ سارے انبیااکرام سچے اور اللہ کے بندے تھے اور وہ جو مذہب لائے وہ اللہ کی طرف سے تھا مگر وہ مذاہب عالمگیر شہرت کیوں نہ حاصل کر سکے آخر اسلام ہی وہ مذہب کیوں ہے جو تیزی سے پھیلا اور پھر پھیلتا ہی چلا گیا اور پھیل رہا ہے۔
اصل میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو سدھارنے کے لیے ان پر کئی پیغمبر بھیجے جو اللہ کی طرف سے پیغامات لیکر دنیا میں تشریف لائے حضرت موسی کی اتنی پر زور تاکید کے باوجود بنی اسرائیل خدا کی کتاب سے غافل ہوتے چلے گئے ان کی غفلت یہاں تک بڑھی کہ حضرت موسی کے سات سو برس بعد ہیکل سلیمانی کے سجادہ نشین اور یروشیلم کے یہودی فرمان رواتک کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے ہاں تورات نامی کوئی کتاب موجود ہے علمائے یہود نے کتاب اللہ کے علم کی اشاعت کرنے کی بجائے اس کو مذہبی پیشہ وروں کے ایک مخصوص طبقے میں مقید کر دیا یہودی اصل یہودیت سے لاعلم ہو چکے تھے دین مسیحیت دین یہود کی تکمیل کے لیے نازل ہوا تھا مگر یہودی جو آقا قوم سمجھتے تھے اور ہیں نے دین مسیحیت کو نہ صرف جھٹلایا بلکہ حضرت عیسی کا ایذائیں پہنچائیں صلیب پر لٹکا دیا اسی وجہ سے عیسائی اپنے دور اول میں ہی یہودیوں کے زیر تابع آگئے اسلام سے پہلے ہر مذہب کے صاحب ثروت لوگ خود کو سب سے افضل اور اعلیٰ سمجھتے تھے اور وہی خدا کے بندے مانے جاتے یعنی قربت کی بنیاد امارت تھی غریب بے بس لاچار انسانوں کو کوئی حق نہیں ہوتا تھا کہ وہ امیروں کے خداکے گھر میں جا کر ان کے خدا کی عبادت کریں ان کا کام صرف اور صرف سرداروں کی کی غلامی کرنا ہوتی تھی وہی ان کے معبود تھے۔
قبل اسلام کوئی بھی مذہب مکمل نہیں رہا تھا ان ربیوں مربیوں اور علما ء سو نے مذہب کے اند ر اتنی تبدیلیاں کیں کہ کسی بھی مذہب کی اصل تعلیمات ناپید ہو چکیں تھیں پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت قبل سے چایس سالہ زندگی امن آشتی کاایک عظیم اور بے مثل نمونہ ہے دنیا بھر کے انسانوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو خود ساختہ خدائوں کی پرستش کو چھوڑ کر ایک رب کی ابراہیم کے رب کی عبادت کرنے کا کہتے یہی بات ان طاغوتوں کو گراں گزری جنہونوں نے فرسودہ روایات کو جنم دیکر مظلوم انسانوں کو غلام بنایا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو یہی سمجھانے کو کوشش کی کہ یہ نسلی امتیازات کی بدولت تم اللہ کے قریب نہیں ہو سکتے بحیثیت انسان کسی کو کسی بھی انسان پر فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے سب کے حقوق یکساں ہیں اور سب کے لیے میزان وانصاف ایک ہے اگر کسی کو کسی پر عزت و عظمت بزرگی و برتری اخلاقی طور پر حاصل ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ خیشت الہیٰ ہے جو کوئی بھی تقویٰ اختیار کرے گاوہ اللہ اور لوگوں کی نظروں میں زیادہ عزت و توقیر کا مستحق ہو گا یہی بات مشرکین کو ناگوار گزری کہ وہ کسی انسان کو اس کی رنگت اور غربت کی وجہ سے غلام نہیں بنا سکتے۔
غلاموں کے بھی وہی حقوق ہیں جو ان سرداروں کے ہیں بلکہ وہ اپنے عقائد کی پختگی کی بدولت اور تقویٰ کی بنیاد پر ان پر مرتبت حاصل کر چکے ہیں حقوق انسانی کا تحفظ صرف اور صرف اسلام اور اسلامی اعتقادات وتصورات کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے کسی اور ذریعہ ‘کسی اور عقیدہ وقانون سے نہیں کیونکہ اسلامی عقیدہ و تصور میں دنیا بھر کے سارے انسان ایک مرد عورت آدم حواکی اولاد ہیں سورة الحجرات ١٣میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”اے لوگوں ہم نے تمہیں ایک مرد عورت سے پیدا کیا اور تمہارے گروہ اور قبیلے صرف اس لیے بنادئیے ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکوں کہ فلاں گروہ اور قبیلے ہیں ظہور اسلام کے زمانے تک یہود جو اقصائے عالم میں منتشر آوارہ ہوچکے تھے سود درسودبردہ فروشی اور اپنے سازشی کردار کے ذریعے اپنی بستیاں جگہ جگہ تعمیر کر چکے تھے ہر جگہ مقامی معشیت پر بھی چھا چکے تھے اور اپنے مفادات کے لیے دوسروں کو اندھیرے اور جہالت میں مبتلا رکھتے اور ان کی بے بسی محتاجی کا مذاق اڑایا جاتامقامی بدئوں اور قریش عرب سے وہ اپنے اس رشتے کا اظہار کرتے جو اولاد ابراہیم ہونے کے باعث قائم تھا یہودیوں کا مسلمانون سے دشمنی کا ایک بڑاسبب یہ بھی تھا کہ انہوں نے اسلام کو ایک نئے مذہب کے طور پر سمجھا ہی نہیں بلکہ وہ اپنے انبیاء اکرام اور الہامی کتابوں کی روشنی میں اسی دین کی کڑی سمجھتے رہے۔
جب انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ ”اسلام”یہودیت کی تکمیل کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ ایک نیامذہب اور فطرت کا دین ہے یہودی اپنی ذاتی عظمت اور جھوٹی شان وشوکت کو برقرار رکھنے کے لیے دین یہودیت کو بھی زیادہ پھیلانا نہیں چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ دوسرے درجے کے ایسے مذاہب فروغ پائیں جن میں انہیں مرکزی حیثیت حاصل ہویہودی ذہنیت کو سمجھنا بہت مشکل ہے یہ اتنے بڑے تعصب پسند اورانتہا پسند ہیں کہ یہ اپنے مفادات کے لیے اپنے ہی مذہب میں تبدیلیاں کرتے چلے آرہے ہیں یہودی آج دنیا بھر میں مختلف لبادے اوڑھ مختلف نظاموں کو لیکر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے متحرک ہیں کیمونزم آج وطن عزیز پاکستان میں جس نظام کو ہمارے سرمایہ دار طبقے میں سب سے زیادہ سراہا جا رہا ہے اور جس کی مثالیں حکومتی لوگ دیتے ہیں وہ یہودیت کی ہی ایک کڑی اور پیدائش ہے کیونکہ کیمونزم کا خالق اور اس معاون لینن اور ٹراٹسکی یہودی تھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے کہ اور ہمارا پاکستان دہشت گردی کے نشانے پر ہے ہم ایک طویل مدت سے دہشت گردی کا شکار ہیں آج کا المیہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی جگہوں پر کچھ لوگ اپنے تحفظ اپنے دھرتی کے تحفظ کے لیے جدوجہد کررہے ہیں باہر سے کچھ لوگ آتے ہیں کسی علاقہ پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اس علاقہ کے لوگوں پر جبری حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن مقامی لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے اور دشمن کو بھگانے کے لیے جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہیں اپنا حق خود ارادیت استعمال کرتے ہیں کیا ایسے لوگوں کو دہشت گرد کہیں گے ؟
ایسے لوگ تو آزادی کے علمبردار اور مجاہد ہوتے ہیں یہ اسلام کا اصول ہے کہ اپنے مذہب اور ملک کی حفاظت کرنا دہشت گردی نہیں جہاد ہے جو کہ ہر مسلمان پر فرض ہے آج دنیا کی اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی یہ وضاحت موجود ہے کہ اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر جبر ی قبضہ کرنے کی کوشش کرے تواس علاقہ کے لوگوں کو اپنے ملک کے تحفظ کا پورا حق حاصل ہے جب کہ ایسا نہیں ہو رہا دنیا بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہاہے اور مسلمانوں کی آزادی پر پا بندیا لگائی جاتی ہیںمسلمانوں کو حق خود اردیت سے محروم کیا جا رہا ہے برما’فلسطین’شام ‘ایران’بھارت ‘کشمیر اور دیگر یہودی وصہیونی ممالک میں مسلمانوں کو ہر قسم کے حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے بلکہ انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اوپر سے مسلمانوں کو ہی دہشت گرد کہا جاتا ہے کیوں؟اس لیے کہ مسلمان اپنی آزادی کے لیے جہاد نہیں کررہے ہیں جب کہ جہاد فرض ہوچکا ہے مسلمان کبھی پہل نہیں کرتا اور نہ ہی جنگ کا خواہشمند ہوتا ہے مگر اگر جنگ مسلط کردی جائے تو میدان جنگ سے بھاگنا نہیں چاہیے آج بھارت کشمیر پر زبردستی قبضہ کیے ہوئے ہے ایل او سی پر بلا اشتعال فائرنگ فوجی جوانوں کی شہادتیں مسلمان عورتوں ‘بوڑھوں’بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ادھر یہودی ٹرمپ نے امریکہ کا صدر بنتے ہی مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے کیوں؟کیونکہ اس وقت سارے قوانین کمزوروں پر لا گو کیے جا رہے ہیں جبکہ طاقتور ممالک ڈنڈ ے کے زور پر جو چاہتے ہیں کر لیتے ہیں ان کو روکنے اور ٹوکنے والا بھی نہیں اس وقت طاقتور ممالک جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلواتے ہیں وہ خود انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں جس کی واضح مثال گوانتا موبے ‘ابو غریب اور بگرام کے ٹارچر سیل ہیں ایسے عقوبت خانوں اور اذیت گاہوں کو بند کیوں نہیں جاتا ؟ان سب حقائق کے بعد موضوع کالم کی طرف آتے ہیں ہمارے خود ساختہ مصائب کا حل پیغمبر انسانیت کی تعلیمات اور اسلامی نظام کے نفاذ کے اندر ہے کیونکہ نبی رحمت ۖ نے چودہ سوسال پہلے ان مصائب کا حل بتا دیا تھا ایک سوال ان کے لیے جو اس اسلامی ریاست کو ایک کامیاب ریاست بنانے کے دعوے کرتے ہیں ان کو علم ہے کہ کامیاب ریاستیں وہی ہوتیں جن کے نظام ”انصاف”پر ہوتے ہیں اور ”انصاف”صرف اسلام کے نظام میں ہے اور آخر اس اسلامی ملک میں اسلام کا نظام نافذکیوں نہیں کرتے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ْ