دولت اسلامیہ (جیوڈیسک) رہنما اپنی پیش قدمی روکنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہے۔ بظاہر اپنے تازہ آڈیو پیغام میں دولت اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی نے اسلام کی جائے پیدائش اور تیل کی دولت سے مالامال ملک سعودی عرب کو اپنا اگلا ہدف قرار دیا۔ انھوں نے سعودی عرب کا نام تو نہیں لیا کیونکہ یہ نام حکمران قبیلے السعود کی مناسبت سے رکھا گیا تھا اور دولت اسلامیہ السعود کی حکمرانی تسلیم نہیں کرتی۔
البغدادی نے آڈیو پیغام میں سعودی عرب کو سرزمین حرمین کے نام سے پکارا جس کا مطلب ہے دو مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کی سرزمین۔ سعودی عرب میں بڑھتے ہوئے اپنے پیروکاروں کے لیے پیغام میں دولت اسلامیہ نے مشرقی صوبے میں بسنے والی شیعہ اقلیت کو اپنا پہلا ہدف قرار دیا۔ شیعہ اقلیت کو سخت گیر سلفی ’بدعتی‘ قرار دیتے ہیں۔
مشرق وسطی میں فرقہ واریت کی خلیج اتنی گہری ہو چکی ہے کہ سعودی عرب دولت اسلامیہ کو شدت پسند نہیں بلکہ سنی اسلام کے بہادر رکھوالوں کی تنظیم سمجھتی ہے۔ خلافت کے اعلان کے بعد یہ تو تقریباً طے تھا کہ دولت اسلامیہ خطے کے سب سے بڑے اور اہم ملک پر اپنی نظریں مرکوز کرے گی۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم دولت اسلامیہ کو اسلام کا سب سے بڑا دشمن قرار دے چکے ہیں۔ نیو یارک میں چھپنے والے ایک مضمون میں سعودی حکومت کے قریب سعودی باشندوں کا کہنا تھا کہ خطے میں اگر کوئی قوت دولت اسلامیہ کو شکست دے سکتی ہے تو وہ طاقتور سعودی حکومت ہے۔ دولت اسلامیہ کے پھیلنے میں سعودی کردار سعودی حکام کئی بار سعودی عرب کو دولت اسلامیہ کا سب سے بڑا ہدف قرار دے چکی ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود کئی تجزیہ کار سعودی عرب پر دولت اسلامیہ کی فنڈنگ کرنے اور ان کے سخت گیر اسلام کی در پردہ حمایت کے الزامات لگاتے ہیں۔ لیکن سعودی حکومت ان الزامات کو سختی سے رد کرتی آئی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ دولت اسلامیہ شام میں ہونے والی لڑائی اور عراق کی شیعہ حکومت کی تعصب پر مبنی پالیسیوں کے پیداوار ہے۔
سعودی عرب کو آج انتہائی مشکل اور پیچیدہ حالات کا سامنا ہے۔ سعودی ائیر فورس دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی سربراہی میں بننے والے اتحاد میں شامل ہے اور اس فیصلہ پر بہت سے سعودیوں کو اعتراض ہے۔ اطلاعات کے مطابق دولت اسلامیہ کے خلاف ایف 15 جنگی طیارہ اڑانے والے سعودی شہزادے کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔
اس وقت دو ہزار سے زیادہ سعودی دولت اسلامیہ کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں جو کہ اپنے ساتھ سخت گیر ’تکفیری‘ اسلام کے نظریات سعودی عرب لے کر آئیں گے۔ کویت اور قطر سمیت سعودی عرب کو بھی عام لوگوں کی جانب سے دولت اسلامیہ کی مالی امداد روکنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
سعودی عرب کو فی الحال دولت اسلامیہ کی جانب سے براہ راست حملے کا تو خطرہ نہیں لیکن سعودی انٹیلیجنس کو دولت اسلامیہ کے پیروکاروں کی جانب سے سعودی میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اور یہ ان کی صلاحیتوں کی ایک بڑی آزمائش ہو گی۔