الریاض (جیوڈیسک) سعودی عرب کی وزارت دفاع کے مشیر اور عرب اتحادی فوج کے ترجمان جنرل احمد عسیری نے کہا ہے کہ ان کا ملک شام میں امریکا کی قیادت میں دولت اسلامی ’داعش‘ کے مرکز الرقہ میں فوجی آپریشن میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے جنرل عسیری نے کہا کہ توقع ہے کہ جلد ہی امریکا کی قیادت میں شام کے الرقہ شہر میں داعش کے گڑھ میں فوجی آپریشن شروع کیا جائے گا۔ ضرورت پڑی اور اہم سے مدد مانگی گئی تو سعودی عرب اس آپریشن میں بھرپور حصہ لے گا۔
خیال رہے کہ امریکا شام کے شہر الرقہ میں دولت اسلامی کے خلاف کارروائی کے لیے ایک ایسےوقت میں تیاری کررہا ہے جب دوسری جانب عراق کے شہر موصل میں داعش کے مرکز کی طرف عراقی اور اتحادی فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔
سعودی مشیر دفاع کا کہنا ہے کہ ریاض الرقہ میں داعش کے خلاف متوقع فوجی آپریشن میں فضائی حملوں کی حد تک حصہ لینے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ سنہ 2014ء میں داعش کے خلاف وجود میں آنے والے عالمی اتحاد کی زیرنگرانی سعودی عرب داعش کے ٹھکانوں پر 201 فضائی حملے کرچکا ہے۔
جنرل عسیری کا کہنا تھا کہ عالمی اتحاد کا حصہ ہونے کے ناطے سعودی عرب داعش کے خلاف کسی بھی آپریشن میں حصہ لینے کا پابند ہے۔ سعودی عرب داعش کے خلاف فضائی حملوں میں حصہ لے گا۔ شام میں داعش کے خلاف کارروائی کی صورت میں سعودی عرب ترکی کا انجیرلیک فوجی اڈہ استعمال کرے گا۔
ایک سوال کے جواب میں سعودی مشیر دفاع نے کہا کہ جب سے داعش کے خلاف عالمی اتحاد وجود میں آیا ہے سعودی عرب نے عراق کی سرزمین کے اندر داعش کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب عراق کے شمالی شہر موصل میں داعش کے خلاف جاری آپریشن میں حصہ نہ لینے کے اپنے فیصلے پر قائم ہے۔
ایک سوال کے جواب میں جنرل احمد عسیری نے کہا کہ سعودی عرب کے لیے ایسے کسی آپریشن میں حصہ لینے کا کوئی جواز نہیں جس میں ایرانی حمایت یافتہ الحشد الشعبی جیسے عسکریت پسند گروپ شامل ہوں۔
خیال رہے کہ گذشتہ منگل کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقدہ وزراء خارجہ اجلاس میں امریکی وزیر دفاع آشٹن کارٹر اور ان کے فرانسیسی ہم منصب جان ایف لوڈریان نے انکشاف کیا تھا کہ بین الاقوامی اتحاد شام کے شہر الرقہ کو داعش سے آزاد کرانے کے لیے آپریشن شروع کرنے پر تیار ہے۔
امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ داعش کو الرقہ موصل میں شکست دینے کے بعد الرقہ میں تنہا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ تنظیم کو موصل میں کاری ضرب لگانے کے بعد الرقہ میں فوجی کارروائی نہ کی گئی تو تنظیم دوبارہ فعال ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ داعش کے لیے موصل کی طرح الرقہ بھی تزویراتی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ داعش کا پہلا گڑھ الرقہ ہی ہے۔ اس کے بعد دوسرے درجے کا مرکز موصل ہے۔ موصل سے فرار ہونے والے داعشی دہشت گردوں کو الرقہ میں پناہ لینے اور دوبارہ سرگرم ہونے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔