تحریر : بیگم صفیہ اسحاق پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی جانب سے سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی سنبھالنے پر مختلف حلقوں میں بحث شروع ہوگئی جبکہ اس فیصلے پر ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے بلواسطہ اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جنرل (ر) راحیل شریف دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے 399 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی کریں گے۔بعد میں انہوںنے اپنے بیان کی تردید بھی کر دی۔معاملہ سامنے آنے کے بعد سوشل ویب سائٹ ٹوئٹر پر راحیل شریف ٹرینڈ بن گیا جبکہ اس معاملے پر 9 ہزار 500 سے زائد ٹوئٹس کی گئیں۔وفاقی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ایسی تعیناتیوں کے لیے حکومت اور جنرل ہیڈکوارٹرز سے کلیئرنس کی ضرورت ہے اور یہ تعیناتی حکومتی منشا اور جی ایچ کیو کی کلیئرنس کے بعد ہوئی، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات ان کے علم میں نہیں ہیں۔ دسمبر 2015 میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان سمیت 30سے زائد اسلامی ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس قومی اتحاد کے بانی پرنس محمد بن سلمان السعود ہین اس فوجی اتحاد کا ہیڈ کوارٹر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں قائم کیا گیا ہے۔
یہ قومی اتحاد افریقہ’ جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کے خلاف کام کرے گا’ جب یہ اتحاد قائم کیا گیا تو اس کے رکن ممالک کی تعداد 34 تھی جو اب بڑھ کر 39 ہو گئی ہے۔ چند روز قبل سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف خصوصی طیارے میں سعودی عرب روانہ ہوئے تھے جہاں انہوں نے سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی تھی ۔اسلامی ممالک کے فوج کی سربراہی کوتجزیہ کار پاکستان کیلئے اعزاز اور سفارتی سطح پر سودمند فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ جنرل راحیل کے دہشت گردی کے خلاف کارکردگی سے اسلامی ممالک فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ جنرل راحیل پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے کام کریں گے۔ اس سے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے نئی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے ہی ایران کے خدشات دور کرنے کیلئے متعلقہ ممالک سے یقین دہانی حاصل کرلی ہے۔ جنرل راحیل شریف کی اسلامی فوج کی کمان سنبھالنے سے پاکستان کو مسلم امہ کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کا موقع ملے گا۔جنرل راحیل شریف کا39اسلامی ممالک کی مسلح افواج کا دہشت گردی کے خلاف چیف بنایا جانا عالمی سطح پران کی اعلیٰ صلاحیتوں کا اعتراف ہے پاکستان کے سابق آرمی چیف نے جب مسلح افواج کی کمان سنبھالی تھی تو اس وقت دہشت گردی، انتہا پسندی اور چار بڑے ممالک کی سازشوں کی وجہ سے پاکستان مشکلات کا شکار تھا۔
انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور مہارت سے تمام ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے مختصر مدت میں حالات کو کنٹرول میں کیا بلکہ فوج کا مورال بلند کرکیدنیا میں نمبر ون فوج بنا دیا۔ کامیاب شخصیات آسامیوں کے محتاج نہیں ہوتے ہوتے بلکہ ممالک سر جوڑ کر ان کے لئے اور ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کے راہیں تلاش کرتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے اپنی سروس کے دوران ایسے اقدامات اٹھائے جن سے دہشت گردی کی کمر ٹوٹ گئی۔پاک چائنہ اقتصادی راہداری جیسے میگا پراجیکٹ کی راہ میں حائل سیکورٹی کا مسئلہ درپیش تھاجنرل راحیل شریف نے اس میگا پراجیکٹ کی افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے پورا نیا بریگیڈ بنا دیا جس سے نہ صرف پندرہ ہزار نوجوانوں کو روزگار ملا بلکہ سیکورٹی بھی فول پروف ہوگئی۔ اہم اتحاد ایک دوسرے کو قریب لانے میں مددگار ثابت ہوگا اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے عناصر کے عزائم پر بھی کاری ضرب پڑے گی۔اسلامی ممالک کی فوج کے سربراہ کے حوالہ سے سیاسی جماعتوں کا دوہرا معیار بھی سامنے آگیا۔
Raheel Sharif and Shah Salman
جب راحیل شریف آرمی چیف تھے تو عوام نے انہیں سر پر بٹھایا اور پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے یعنی عہدہ سے سبکدوش ہوتے ہی شہیدوں کے خانوادہ جنرل (ر) راحیل شریف پر طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں اور یہ سب اپنے عروج کو تب پہنچا جب راحیل شریف سعودی حکام کے مہمان بن کر سعودی عرب پہنچے اور پھر افواہیں آسیب کا روپ کی مانند ایسے سابق آرمی چیف سے چمٹیں جیسے یہ ان کا حق ہو۔سیاسی جماعتوں نے نہ صرف جنرل راحیل شریف کی ذات پر تنقید کی بلکہ امریکی غلاموں نے سعودی عرب پر بھی تنقید کی جس نے مشکل کی ہر گھڑی میںپاکستان کی مدد کی۔احسان فراموش سیاسی جماعتوں نے سعودی عرب کے دوستی کے اس رشتے کو بھی یاد نہیں کیا کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کا کلمہ کا رشتہ ہے وہان حرمین شریفین موجود ہیں،ہر کلمہ گو وہاں جانا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے۔پاک سعودی تعلقات خراب کرنے اور جنرل راحیل شریف کے کردار پر کیچڑ اچھالنے والوں کے ہاتھ کبھی کچھ نہیں آئے گا کیونکہ جسے اللہ عزت دینا چاہے اسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود مسلم اْمہ میں اتحاد کے علم بردار ہیں۔ انہوں نے ہرجگہ اور ہروقت اسلام اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان قابل رشک، مضبوط دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم ہیں۔
اسلام آباد سعودی حکومت بالخصوص خادم الحرمین الشریفین کی عالم اسلام میں اتحاد کی مساعی جمیلہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دہشت گردی پوری دنیا کا سب سے بڑا فتنہ ہے پاکستان اور سعودی عرب سمیت دنیا کے تمام ممالک اس فتنہ کے شکار ہیں۔ خادم الحرمین الشریفین کی تمام توجہ عالم اسلام میں وحدت کے قیام اور دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے پر مرکوز ہے۔ سعودی عرب عالم اسلام سے فرقہ واریت کی لعنت اور گروہی تعصبات کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے تاکہ مسلم امہ متحد کیا جا سکے۔ شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان کی تخت نشینی سے سلطنت کی پالیسیوں میں واضح تبدیلی آئی ہے اور سعودی عرب نے خطے کے امور میں جارحانہ کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا کہناہے کہ اسلامی عسکری اتحاد سعودی عرب کی سلامتی کے دشمنوں کیلئے ایک واضح انتباہ ہے ، آج کی حقیقت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم ایک ایسی مناسب فضا قائم کرنے کے لیے مل جل کر کام کریں جہاں امن، استحکام اور ترقی کیلئے خطے کے عوام کی امیدیں پور ی ہوسکیں، بعض عناصر علاقائی ممالک کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کیلئے متحرک ہیں، لیکن فوجی مشق ”شمال کی گرج” جسے خطے میں سب سے بڑی فوجی مشق تسلیم کیا جا چکا ہے اسلامی اتحاد کی قیادت کی جانب سے ان تمام عناصر کے لیے ایک پیغام ہے۔
خادم حرمین شریفین نے واضح کیا کہ اسلامی دنیا میں تعاون اور مربوط کوششوں پر مبنی اتحادوں کے ذریعے اجتماعی اور حکمت عملی کے حامل کام ہوئے ہیں، ان ہی میں سے ایک اہم کام دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد کا قیام بھی ہے ۔پاکستان میں ہونے والی تنقید اور طوفان بدتمیزی پر راحیل شریف خاموش رہے جہاں تک ان کا صبر تھا ،مگر وہ بھی انسان ہیں انہوںنے کیا شکوہ کیا ؟ اسی حوالے سے نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار امجد شعیب کا کہنا تھا کہ حال ہی میں میری راحیل شریف سے بات ہوئی۔ جس میں انہوں نے مجھے کہاکہ اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی سے متعلق میرے بارے میں میڈیا میں جو بھی باتیں ہوئیں اور جو غلط بیانی کی گئی اس پر مجھے شدید دکھ ہوا۔ کسی نے میرے متعلق کچھ کہا اور کسی نے ریمارکس لکھے کہ میں ریالوں کے لیے بک گیا۔ راحیل شریف اپنے متعلق میڈیا پر چل رہی باتوں پر نہایت افسردہ ہیں اس اتحاد سے متعلق کسی کو کوئی علم نہیں اور بغیر کچھ بھی جانے ہر ایک نے بیانات دینا شروع کر دئے ہیں، اس تمام تر معاملے کا ملبہ راحیل شریف پر ڈالنے کی کوشش کی گئی، جو کہ قابل مذمت ہیں۔ یہ تمام تر کنفیوڑن ہمارے وزیر دفاع کے بیان کی وجہ سے پیدا ہوئی ، ان کے بیان کی وجہ سے میڈیا میں سمجھا گیا کہ یہ کام ہو چکا ہے۔راحیل شریف نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ میں نے تو ملک کی خاطر یہ سارا کام کیا۔