تحریر : ممتاز حیدر دہشت گردی مخالف اسلامی فوجی اتحاد میں شامل اکتالیس ممالک کے وزرائے دفاع نے دہشت گردی اور متشدد انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے لیے عالمی کوششوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔دہشت گردی مخالف اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کے دو سال بعد رکن ممالک کے وزرائے دفاع کا اتوار کو سعودی دارالحکومت الریاض میں پہلا اجلاس منعقد ہوا ۔اس اجلاس کا عنوان” دہشت گردی کے خلاف یک جا” ہے۔اس میں رکن ممالک کے سعودی عرب میں تعینات سفارت کار اور ماہرین نے بھی شرکت کی ۔افتتاحی اجلاس میں اس اتحاد کے سیکریٹری جنرل لیفٹیننٹ جنرل عبداللہ الصالح نے اتحاد کی حکمتِ عملی ، نظم ، گورننس ، سرگرمیوں اور مستقبل کے منصوبوں کا خاکا بیان کیا۔رابطہ عالمی اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے اپنی تقریر میں نظریے کا تعارف کرایا اور انتہا پسندوں کے متشدد انتہا پسندانہ نظریے سے نمٹنے کے لیے اسلام کے امن اور رواداری کے پیغامات کو فروغ دینے کی ضرورت پر زوردیا۔ اسلام کے رواداری ،اعتدال پسندی اور تحمل کے اصولوں کو عام کرنے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے نظریاتی ، نفسیاتی اور سماجی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔ڈاکٹر عیسیٰ کا کہنا تھا کہ” دہشت گردی ایک سکیورٹی مسئلہ ہی نہیں ، ایک نظریاتی مسئلہ ہے ، معاصر انتہا پسندی ایک باعلم مزاحمت ومقابلے کی عدم موجودگی میں پھیل رہی ہے”۔انھوں نے بتایا کہ دنیا کے ایک سو سے زیادہ ممالک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی ہے اور اس تنظیم کے پچاس فی صد جنگجو یورپی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والے 41 مسلمان ملکوں کے عسکری اتحاد کے وزراء دفاع کی سطح کے اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیے میں دہشت گردی کی لعنت کو عالمی امن وسلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی لعنت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔
یہ ناسور ایک سے دوسرے ملک میں منتقل ہو رہا ہے اور ماضی کی نسبت زیادہ مہلک اور خطرناک بن کر معاشروں اور اقوام کی تباہی کا موجب بن رہا ہے۔اجلاس میں شریک اسلامی ملکوں کے وزراء دفاع نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے لیے فکری، ابلاغی، مالی اور عسکری محاذوں پر بھرپور لڑائی لڑنے کے عزم کا بھی اعلان کیا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ اسلامی عسکری اتحاد دہشت گردی کے اسباب ومحرکات کو ختم کرنے کے لیے اس کے فکری اور نظریاتی مراکز کو ختم کرنے کی کوش کرے گا۔ انتہا پسندانہ نظریات، اس کے نصاب، پھیلاؤ، معاشرے کیافراد پر اس کے اثرات کی روک تھام کے لیے اسلام کی روشن اور اعتدال پسندانہ تعلیمات کو عام کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں امن بقائے باہمی کی صلاحیت پیدا ہوسکے۔ابلاغی میدان میں اتحاد میں شامل ممالک دہشت گری کے منفی پروپیگنڈے کی روک تھام کے لیے بھرپور ابلاغی جنگ کرے گا۔ دہشت گردوں کے ان الات اور ذرائع کی نشاندہی کرکے انہیں ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی جو دہشت گردی کے پھیلاؤ اور اس کی ترویج کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے معاونت کاروں کے بارے میں ایک دوسرے کو معلومات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی تاکہ دہشت گردوں کو ملنے والی رقوم روکی جاسکیں۔اسلامی عسکری اتحاد دہشت گردی کے خلاف عسکری محاذ پر بھی بھرپور کارروائی پریقین رکھتا ہے۔سعودی ولی عہد ، وزیر دفاع اور نائب وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کو اسلام کا پْرامن تشخص مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔آج ہم ایک مضبوط پیغام دے رہے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مل جل کر کام کریں گے۔ آج ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کا اس کے مکمل استیصال تک پیچھا جاری رکھیں گے”۔
دہشت گردی مخالف اسلامی فوجی اتحاد کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کمانڈر ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ امن واستحکام کیلئے 21 ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے۔ پوری دنیا، بالخصوص مسلم دنیا کو دہشت گردی کے بدترین رواج کا سامنا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں نے اسلام میں جہاد کے تصور کی شکل بگاڑ دی۔ گھنائونے مجرمانہ اقدامات کو اسلامی جواز کا لبادہ اوڑھا دیا جبکہ دہشت گردی کی بھیانک اور قابل مذمت سرگرمیاں عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں۔راحیل شریف نے توجہ دلائی کہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران دنیا بھر میں دہشت گردی کے تقریباً 8 ہزار بڑے حملے ریکارڈ پر آئے ہیں۔ ان میں 90 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں بے گناہ زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملے مشرق وسطی، جنوبی ایشیا اور براعظم افریقا میں ہوئے۔ بیشتر حملے القاعدہ، داعش اور انکی ماتحت دہشت گرد تنظیموں نے کرائے۔ دہشت گردی سے 70 فیصد سے زیادہ اموات عراق، افغانستان، نائجیریا اور پاکستان میں ہوئیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران مذکورہ چاروں ممالک کو بھاری جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔حالیہ ایام کے دوران عراق میں بہتری نظر آنے لگی ہے۔ جہاں داعش کے زیر قبضہ علاقے بازیاب کرلئے گئے ہیں۔ راحیل شریف نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف توازن تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اب بھی اس خطرے سے نمٹنے کیلئے کامیابی سے اقدامات کر رہا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ انتہائی پیچیدہ اور زبردست وسائل کی متقاضی ہے۔ دراصل پولیس سیکیورٹی اداروں اور افواج کا مقابلہ ایسے دشمن سے ہے جس کے نقوش واضح نہیں۔ یہ اول درجے کی تیاری، مکمل بیداری اور ہمہ وقت آنکھیں کھلی رکھنے کی طلب گار جنگ ہے۔ بعض ممالک متعدد شعبوں میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے انتظامات کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تاہم اس خطرے کے خلاف مسلم دنیا کے صف بستہ ہونے اورایک دوسرے کا دست وبازو بننے کے حوالے سے مطلوب عمل میں کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔راحیل شریف نے توجہ دلائی کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے دہشت گردی کیخلاف اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کا فیصلہ کرکے انتہائی جراتمندانہ اور تاریخی کام کیا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی سے مل جل کر نمٹنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے اسلامی فوجی اتحاد کے تصور کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصور رکن ممالک کے درمیان جدوجہد میں یکجہتی پیدا کرنے، انتہائی موثر اور پیشہ ورانہ انداز میں کام کرنے اور قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ تصور اتحاد ی ممالک کو حمایت کرنے والے ممالک کا تعاون فراہم کرے گا۔ دنیا بھر کی تنظیمیں اس پلیٹ فارم کے ذریعے سیاسی، فکری، ابلاغی، اقتصادی اور عسکری مساعی میں اتحاد پیدا کر سکیں گے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کی جملہ شکلوں اور صورتوں کے ساتھ متحد ومتفق ہوسکیں گے۔
یہ اتحاد عالمی امن وسلامتی کے تحفظ کیلئے کی جانے والی عالمی مساعی میں شمولیت کی راہ ہموار کرے گا۔ اسلامی فوجی اتحاد کسی ملک یا فرقے یا مذہب کے خلاف نہیں۔ اسکا واحد مقصد دہشت گردی سے لڑنا ہے۔ اسلامی فوجی اتحاد 4 اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کرے گا۔ انتہا پسندانہ افکار کی مزاحمت، اسلام کے عالمی پیغام کی حفاظت، دہشت گردی کی فنڈنگ کی مخالفت اور رکن ممالک کے درمیان دہشت گردی کے حوالے سے معلومات کے تبادلے کا اہتمام کیا جائے گا۔ اسلامی عسکری اتحاد کا کمانڈارانچیف جنرل (ر) راحیل شریف کو بنایا گیا جو پاک فوج سے آرمی چیف ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔یہ پاکستان کے لئے بھی اعزاز کی بات ہے کہ اسلامی عسکری اتحاد کا کمانڈرانچیف پاکستانی ہے۔جنرل راحیل شریف کے دور میں پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہوا اور دہشت گردوں کا قلع قمع کیا گیا۔ان کا تعلق شہداء کے گھرانے سے ہے۔بہادر اورنڈر جنرل جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی ریٹائرڈ نہیں ہوئے بلکہ بڑی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔سعودی عرب نے خود جنرل راحیل شریف کو اسلامی عسکری اتحاد کا کمانڈر بننے کی پیشکش کی تھی جس کے بعد پاکستان کے کچھ حلقوں میں شدید مخالفت ہوئی لیکن پاکستانی قوم بھی چاہتی تھی کہ جنرل راحیل شریف قوم کے ہیرو ہیں اب وہ امت مسلمہ کے ہیرو بنیں۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے بطور آرمی چیف دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب آپریشن کے تمام اہداف حاصل کئے ہیں ان کا شمار پاکستان کے مثالی سپہ سالاروں میں کیا جاتا ہے اور ان کی خدمات پوری دنیا کے سامنے ہیں وہ ایک مثالی فوجی ہیں۔پاکستان کی جانب سے وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر نے اجلاس میں شرکت کی۔
سعودی عرب کی قیادت میں 41مسلم ممالک کے اتحاد میں پاکستان کی شمولیت اور جنرل راحیل شریف کی جانب سے قیادت کر نا خوش آئند ہے۔ طویل مدت سے ایسے اتحاد کی ضرورت تھی جو مسلم امہ کے مسائل خود حل کرے اور عالم اسلام کو امریکہ کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔اسلامی ملکوں کا اتحاد کسی کے خلاف نہیں ، جنرل راحیل شریف امت مسلمہ کے اختلافات کم کرنے کے لیے پل کا کردار ادا کریں گے ، مسلم ممالک میں دہشت گردی سب سے بڑا چیلنج ہے جو اسلامی ممالک میں ناسور بن چکا ہے ، مسلمانوں کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات اور چیلنجز کا حل مسلم ملکوں کے اتحاد میں ہی ہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں پوری مسلم امہ متحد ہے۔ مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ کسی قسم کے بیرونی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد میں سرگرم کردار ادا کریں اور ملکی و قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دیں۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے آپریشن ضرب عضب میں زبردست کامیابیاں عطا کی ہیں۔ مسلمانوں کے دفاعی مرکز پاکستان کے اس اتحاد میں شامل ہونے سے دیگر مسلم ملکوں کو بھی اپنے خطوں و علاقوں میں دہشت گردی ختم کرنے میں مددملے گی۔ اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو باہم الجھائے رکھناچاہتی ہیں۔ انہیں دہشت گردی کے خاتمہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ داعش جیسی تنظیمیں ان کی اپنی پیداوار ہیں اور مسلمان ملکوں میں دہشت گردی کرنے والے درحقیقت دشمنان اسلام کے ہاتھوں میں کھیل رہے اور ان کے ہی ایجنڈے پروان چڑھا رہے ہیں۔اسلامی عسکری اتحاد دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اہم کردار ادا کرے گا۔