تحریر: سید انور محمود جنرل (ر) راحیل شریف افواج پاکستان کے 15ویں سربراہ تھے، انہوں نے 29 نومبر 2013 سے 29 نومبر 2016 تک پاک فوج کی سربراہی کی اور 15 جون 2014 سے 29 نومبر 2016 تک آپریشن ضرب عضب کہ رہنمائی کی اور رینجرز کے زریعے کراچی آپریشن کی قیادت کی۔جنرل راحیل شریف کو وزیراعظم کی طرف سے الوداعی ظہرانہ دیا گیا اور وہ عزت و احترام کے ساتھ اپنے عہدے سے سے 29 نومبر 2016 کوسبکدوش ہوگئے۔ اس بات کی گواہی سارئے ملک کے عوام دیتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے پورئے پاکستان میں دہشتگردی میں خاصی کمی آئی، جبکہ لاوارث کراچی میں بھی کافی امن بحال ہوا۔ تاہم وہ اپنی خواہش اور کوشش کے باوجود دہشتگردی کو مکمل ختم اور کراچی کے عوام کو مکمل طور پر جرائم سے چھٹکارا نہ دلا پائے۔ راحیل شریف کو پاک فوج کے سربراہ کے طور پر بہت مقبولیت حاصل رہی اور بعض حلقوں میں انہیں ملک کا مقبول ترین آرمی چیف بھی کہا جاتا ہے۔ شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے جنرل راحیل شریف سے امید کی جارہی تھی کہ وہ یقیناً معاشی طور پر مستحکم ہونگے اور فوج سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے تجربات کی بنیاد پر ایک دو کتابیں تو ضرور لکھیں گے لیکن شاید اب ایسا ناممکن ہے۔
دسمبر 2015 میں سعودی عرب نے اپنی ہی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس اتحاد میں ابتدائی طور پر 34 ممالک تھے تاہم بعدازاں ان کی تعداد 39 ہوگئی۔ سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی کے مطابق اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان، ترکی، اردن، مصر، قطر، متحدہ عرب امارات، ملائشیا اور افریقی ممالک شامل ہیں لیکن اس فوجی اتحاد میں ایران کا نام شامل نہیں ۔ مارچ 2016 میں سعودی عرب کے شہر حفر الباطن میں بارہ روزہ ’’نارتھ تھنڈر‘‘ (شمال کی گرج) نامی اسلامی ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں کی گئی یہ خطے کی سب سے بڑی اور اہم فوجی مشقیں تھیں۔ ان مشقوں کی اختتامی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف اور سابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔ اسلامی فوجی اتحاد کا صدر دفتر سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہے جسے جوائنٹ کمانڈ سنٹر کہا جاتا ہے۔یہ تنظیم سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کی کوششوں سے قائم ہوئی جس کے بارئے میں کہا جارہا ہے کہ یہ تنظیم دہشتگرد تنظیموں کے خلاف بنائی گئی ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ دور میں بیشتر اسلامی ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں۔ شام اور عراق میں داعش، پاکستان اور افغانستان میں طالبان، ترکی میں کرد، یمن اور لیبیا میں القاعدہ، نائیجریا میں بوکوحرام جبکہ مصر اور مالی میں مختلف دہشت گرد تنظیمیں اپنی دہشتگردانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔مشترکہ اسلامی فوج کے قیام کے بعد یہ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ اتحاد دہشتگردی کا شکار ان اسلامی ممالک میں دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گا، لیکن اسلامی فوجی اتحاد کے بارے میں یہ منفی تاثر زائل ہونا چاہئے کہ یہ کسی اسلامی ملک کے خلاف ہے۔ اگر واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنانا ہے تو ایران، عراق اور شام کو بھی اس اتحاد میں شامل کیا جائے اور سعودی عرب اور ایران سمیت تمام ملک ایک دوسرے کے خلاف ہر قسم کی پراکسی وار کو ختم کریں۔
یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف برسر پیکار ہے۔ اگرچہ ان دونوں ملکوں کے اختلافات کی نوعیت سیاسی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ علاقے پر تسلط کا خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی عرب کٹر وہابی عقائد کا پرچار کرتا ہے تو ایران انقلاب خمینی کے بعد سے اب تک سخت شیعہ عقائد کا حامی ہے۔ اس طرح ان دو مسلمان ملکوں کے تصادم کی وجہ سے پورے مشرق وسطیٰ اور متعدد مسلمان ملکوں میں فرقہ وارانہ اختلافات صرف عقیدہ تک محدود نہیں رہے بلکہ سماجی اور سیاسی رویوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی قیادت میں بننے والے اسلامی فوجی اتحاد میں ایران اور دیگر شیعہ مسلک کے حامل ملک شامل نہیں ہیں اور پاکستان کےلیے یہ صورتحال کسی طور مناسب نہیں ، کیونکہ پاکستان کی رائے عامہ بھی انہی عقائد کی بنیاد پر تقسیم ہے۔ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے انقرہ میں کہا تھا کہ ’’یہ اتحاد امریکی حکمت عملی کے عین مطابق ہے جس کے تحت شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے مقابلے کیلئے سنی عرب ممالک کے کردار کو وسعت دینا ہے‘‘۔ کیا امریکی وزیر کا یہ بیان مسلم ممالک کی بربادی کےلیے کافی نہیں ہے اور کیا یہ اتحاد امریکی حکمت عملی کے عین مطابق نہیں ہے۔
Raheel Sharif
جنرل راحیل شریف کچھ دن پہلے سعودی شاہ سلمان کے خصوصی طیارے میں سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقاتیں کیں، ان کے اعزاز میں دارالحکومت ریاض میں خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں سعودی حکمران خاندان کے افراد نے بھی شرکت کی۔ ان ملاقات میں سابق پاکستانی جنرل راحیل شریف کو دو سال کے لیے اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے کہا گیا جو انہوں نے قبول کرلی، اس ذمہ داری کے عوض انہیں نیٹو افواج کے سربراہ سے بھی کہیں زیادہ معاوضہ اور مراعات دی جاینگیں ، میرئے ایک دوست بار بار مجھ سے یہ سوال کررہے ہیں کہ ’’ کیا جنرل(ر) راحیل شریف بھی ریال شریف ہو گئے ہیں؟‘‘۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف نے یہ فیصلہ حکومت کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا ہے۔ وفاقی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ایسی تعیناتیوں کے لیے حکومت اور جنرل ہیڈکوارٹرز سے کلیئرنس کی ضرورت ہے اور یہ تعیناتی حکومتی منشا اور جی ایچ کیو کی کلیئرنس کے بعد ہوئی ہے۔
جنرل(ر) راحیل شریف کسی معمولی عہدئے سے ریٹائر نہیں ہوئے ہیں، وہ پاک فوج میں نہ تو کوئی حولدار تھے اور نہ ہی کوئی دفتری بابو۔ وہ 29 نومبر 2016 تک پاک فوج کے سربراہ تھے اور اسی عہدئے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ اس حیثیت میں وہ پاکستان کے جوہری رازوں سمیت متعدد حساس اور خفیہ معلومات کے امین ہیں۔ کسی بھی فوجی افسر کی طرح ان پر بھی دو برس تک کسی قسم کا سیاسی بیان دینے پر پابندی عائد ہے۔ تو اس صورتحال میں انہیں یہ حق کیسے حاصل ہوگیا کہ فوج سے ریٹارمنٹ کے صرف 35 دن بعد وہ ایک ایسے ملک کی ملازمت اختیار کرلیں جس کی پالیسیاں پاکستان کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسیوں سے مختلف ہیں۔ اگر وہ کسی باقاعدہ اور متفقہ فوجی اتحاد میں خدمات دینے پر راضی ہوتے، تب بھی اس پر سوال اٹھائے جا تے نہ کہ وہ ایک ایسے فوجی اتحاد کا سربراہ بننے ہیں جو صرف سعودی عرب کے کی خواہشات تک محدود ہے۔ اس فوجی اتحاد پر اٹھنے والے اخراجات بھی سعودی عرب برداشت کرئے گا، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب ایسا کیوں کیوں کررہا ہے، جبکہ عالمی منڈی میں تیل کے دام گرجانے کی وجہ سے سعودی معیشت بھی مشکلات کا شکارہے اور شاید اس طرح یہ ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ نہایت مشکوک اور متنازعہ ہوگیاہے۔
مشیر خارجہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا سابق آرمی چیف کا 39ممالک کے اتحاد کی کمان سنبھالنا کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متصادم ہے تو مشیر خارجہ نے اس حوالے سے اپنی لاعلمی کا اظہارکیا، مشیر خارجہ کی لاعلمی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں، اس ملک میں وزیر خارجہ ناپید ہے۔ نواز شریف حکومت کو چاہیے کہ وہ یہ واضح کرے کہ اس 39ممالک کے اتحاد میں پاکستان کا کیا کردار ہے، سابق آرمی چیف کے فیصلے کو ان کا ذاتی فیصلہ کہنا درست نہیں ہے کیونکہ وہ بہت حساس عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے سعودی مہربانوں کے احسانات کے بدلے میں اپنی قوم کی مشکلات میں اضافہ نہ کریں اور جنرل(ر) راحیل شریف کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کے ایک ایسے معاہدے میں شمولیت جو ابھی سے مشکوک اور متنازہ ہے اس سےپاکستان کو کیا نقصان پہنچے گا۔