قائد اعظم کی برسی کے حوالے سے احباب نے میری فیس بک پر کچھ ویڈیو پوسٹ کی تھیں جن میں سے دو کو دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا ہوں ان دو ویڈیو کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ نام نہاد سیکولر عناصر کس طرح جُھوٹ کے پلندے باندھ کر طرح طرح سے قائد اعظم کی روح کو دُکھ پہنچا رہے ہیں ایک ویڈیو جس میں ایک ٹی وی پروگرام میں ہود بھائی صاحب، ایم کیوایم کے حیدر عباس رضوی، جماست اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری فرید پراچہ اور ملک کے مشہور کالم نگار اور دانشور جناب اُوریا مقبول جان شریک تھے اِس پروگرام میں قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے والے دو صاحبان کو اُوریا مقبول جان نے ایک ڈاکومنٹ پیش کر کے چت کر دیا۔ دوسری ویڈیو جس میں ڈاکٹر اسرار صاحب (مرحوم) نے اپنی حیات میں وقت ٹی وی کو انٹر ویو دیا تھا اس انٹر ویو میں وقت ٹی وی کے اینکر کو ایک تحریر کا حوالہ دے کر پاکستان کے بانی کے خلاف سیکولر کے حامی حضرات کے منہ بند کر دیے ان دونوں ویڈیوز کی روداد بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جھوٹ اور سچ پاکستان کی عوام کے سامنے آ جائے۔
وقت ٹی وی کے پروگرام میں ایکر پرسن سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سربراہ تنظیم اسلامی( مرحوم) نے جنگ اخبار میں ریاض علی شاہ جو کہ قائد اعظم کے معالج تھے کی ڈائری کے حوالے سے کہا کہ موت کے آخری دنوں میں قائد اعظم بیماری سے بہت کمزور ہو چکے تھے اور زبان پر کچھ آتا تھا مگر بول نہیں سکتے تھے ہم نے اُن کو دوائی دی کہ کچھ نہ کچھ گفتگو کر لیں ورنہ جو کچھ بھی بولنا چاہتے ہیں وہ بول لیں کیونکہ یہ قوم کی امانت ہے اور راہ جائے گی تو قومی نقصان ہو گا ہم نے قائد اعظم کو اس مقصد کے لیے داوئی دی اس کے استعمال کے بعد جو قائد اعظم نے جو جملے کہے وہ یہ ہیں جواخبار جنگ کی ااستمبر ١٩٨٨ء کی اشاعت قائد اعظم کی چالیسویں برسی کے موقعہ پر مضمون شائع ہوا تھا میں بیان کئے گئے ہیںڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ کی ڈائری کا صفحہ کے حوالے سے قائد اعظم کی گفتگو جو ڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ اور کرنل الہی بخش کی موجودگی میں قائد اعظم نے موت سے دو دن پہلے کہا تھا”آپ کو اندازہ نہیں ہو سکتاکہ مجھے کتنا اطمینان ہے کہ پاکستان قائم ہو گیا اور یہ کام میں تنہا نہیں کر سکتا تھا جب تک رسول ۖ ِ خدا کا مقامی فیصلہ نہ ہوتا اب جبکہ پاکستان بن گیا ہے اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ خلفائے راشدین کا نظام قائم کریں۔۔
دوسری ویڈیو کچھ اس طرح ہے اوریا مقبول جان نے جیو کے ایک ٹی وی پروگرام میں ہود بھائی صاحب اور ایم کیو ایم کے نمایندے حیدر عباس رضوی کے ساتھ گفتگو کی جو قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کا ایڑی چوٹی کازور لگا رہے تھے اوریا مقبول جان نے ڈاکو منٹری ثبوت پیش کر کے ان کو زچ کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ ٹی وی کیمرے والے سے درخواست بھی کی کہ اسے ذرا قریب کر کے ناظرین کو بھی دکھائیں تاکہ یہ عام پاکستانیوں کو بھی معلوم ہو جائے۔ اس ڈاکومنٹ کے مطابق قائد اعظم نے خود اگست١٩٤٧ء میں ہی ایک واحد ڈیپارٹمنٹ قائم کیا تھا جس کا نام ” ڈیپا ٹمنٹ آف اسلامک ڈیکرلیشن” ہے اس ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ مشہور نو مسلم محمد اسد کو بنایا گیا تھا اس ڈاکومنٹ کے مطابق اُن کے ذمے پاکستان کا اسلامی آئین بنانا تھا جس میں اسلامی معاشیات، اسلامی تعلیم اوراسلامی سوشل سسٹم ہو اس ڈیپارٹمنٹ کے لیے بجٹ کے لیے قائد اعظم نے خود خط پاکستان کے مالیاتی ادرے کو بھی لکھا تھا جو اب بھی ریکارڈ کے اندر موجود ہے اس ڈاکومنٹ کی کاپی اس خط کے ساتھ منسلک تھی جبکہ حکومت میں موجود اسلام دشمن قوتوں نے اکتوبرمیں ریکارڈ کو آگ لگا کر اس ڈاکومنٹ کو ضائع کر دیا تھا۔
مگر خوش قسمتی سے اس ڈاکومنٹ کی ایک کاپی جو اس خط کے ساتھ منسلک تھی جو قائد اعظم نے اس پروجیکٹ کے لیے بجٹ مہیا کرنے کے لیے خط لکھا تھا اوریا مقبول جان نے ریکارڈ سے حاصل کی اور قوم کے سامنے اس ٹی وی پروگرام رکھ دیا دی قائد اعظم کی روح کے ساتھ کتنا ظلم ہے جو یہ سیکولر لوگ کر رہے ہیں مگر جس نور کو اللہ روشن کرنا چاہے اسے دشمن ضائع نہیں کر سکتے۔ ثبوت کے طور پر جس کا جی چائے وہ اوریا مقبول جان کے پاس اس ڈاکومنٹ کو دیکھ سکتا ہے۔ اسی تسلسل میں ایک مذیدثبوت کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد قائد اعظم نے مولانا مودودی کے ذمے یہ کام لگایا تھا۔
Islam
وہ قوم کے سامنے اسلام کے عملی نفاذ کا نقشہ ریڈیو پاکستان کے ذریعے بیان کریں مولانا مودودی نے قائد اعظم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسلام کے عملی نفاذ کے لیے ریڈیو پاکستان سے کئی تقریرں کیں تھیں جو ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں اب بھی موجود ہیں اور ہزاروں پاکستانیوں نے اسلام کے عملی نفاذ کے لیے یہ تقریریں سنی بھی تھیں ہماری دعاء کہ اللہ اس ریکارڈ کی حفاظت کرے کہیں اس ریکارڈ کو بھی جلا نہ دیا جائے ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ قائد اعظم نے جو مسلمانان برصغیر کے لیے پاکستان مطلب کیا لا الہ الااللہ کے نعرے سے حاصل کیا اس مقصد کے ساتھ کتنے پر خلوص تھے۔ اسلام سے الرجک لوگ قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے جھوٹ کے پہاڑ بھی کھڑے کر دیں مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے تھے مگر زندگی نے وفا نہ کی اور پاکستان بننے کے بعد جلد ہی اللہ کو پیارے ہو گئے اس کے بعد جس ساتھیوں کو جیب کے کھوٹے سکے کہا تھا وہ واقعی کھوٹے سکے ثابت ہوئے اور اقتدار کے لیے پاکستان پر یکے بعد دیگرے قابض ہوتے رہے پاکستان میں بار بار وزارتیں تبدیل ہوتے ہوئے پاکستان کے دشمن پنڈت جواہر لال نہرو نے طنزیہ کہا تھا کہ میں اتنی شیروانیا ں تبدیل نہیں کرتا جتنے پاکستان میں حکمران تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
آج بھی مملکت پاکستان میں اُسی ذہنیت کے لوگ قابض ہیں جو اس کے اسلامی ہونے پر خاہ مخواہ کا بیر رکھتے ہیں دوسری طرف قائد اعظم کے ویژن کے مطابق پاکستان کے خیر خواہوں نے پاکستان بنتے ہی اسلام کے نفاذ کی عملی کوششیں شروع کر دی تھیں جس میں دستوری مہم بھی شامل تھی ان کوششوں میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی اور قائد اعظم کے تحریک پاکستان کے دوران کے ساتھی مولانا شبیر احمد عثمانی سر فہرت ہیں یہ کوششیں ١٩٧٣ء کے اسلامی دستور کی کامیابی پر منتج ہوئیں اور اسلامی دستور بن گیاجس دستور میں کہا گیا ہے کہ اس ملک میں اسلام کی منافی کوئی بھی قانون سازی نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی قانون اسلام کے خلاف ہے اسے تبدیل کر دیا جائے گا اس دستور کے تحت ایک اسلامی نظریاتی کونسل بھی قائم ہے جس کا کام دستور سے غیراسلامی دفعات کو ختم کروانا ہے اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کام کے لیے محنت کر کے حکومت کو کافی مواد مہیا کیا ہوا ہے مگر آج تک انگریز کے پیدا کردہ کالے انگریزوں نے اس پر پارلیمنٹ میں بحث کرکے قانونی طور پر آئین کا حصہ نہیں بنایا اسلامی نظریاتی کونسل کا گراں قدر کام ریکارڈ اب بھی مووجود ہے سود کو ہی لے لیجیے اس کو قرآن شریف میں اللہ اور رسول ۖکے خلاف جنگ کہا گیااس کو شرعی عدالت نے بھی حرام قرار دیا ہے مگر ہماری موجودہ حکومت کے سربراہ نواز شریف صاحب جب اس سے قبل ملک کے حکمران تھے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی تھی جہاں آج تک اس کو معلق رکھا گیاہے۔
قارئین! اوپر بیان کردہ صرف تین واقعات سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کا مقدر اسلام کے ساتھ وابستہ ہے اس کے لیے انتھک کوشش کرنے والے قائد اعظم کا یہی مشن تھا جس کے لیے وہ مرتے دم تک کوششیں کرتے رہے پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھااس ملک کی عظیم خاموش اکثریت اسلامی نظامِ حکومت کی ہی خواہش رکھتی ہے مگر جو حکمران کعبہ کو دیکھنے کے بجائے واشگٹن اور لندن کی طرف امداد کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں جن کی تاریخ تو یہ ہے کہ جب انہوں نے ترکی کو فتح کر کے اسلامی خلافت کو ختم کر کے اسلامی دنیا کو مختلف راجڑوں میں تقسیم کیا تھا جو اب بھی دنیا کے نقشے میں ٦٦ کی تعدادمیں اسلامی ملکوں کے نام سے موجود ہیں اور اس بات کی قسم کھائی تھی کہ دنیا میں کہیں بھی اسلام کے سیاسی نظام کو رائج نہیں ہونے دیںگے اسلامی ملکوں میںسازشوںبتدریج اپنے پٹھو حکمرانوں بنائے ، ایسے میں ان پٹھوں حکمرانوں سے عوام کو امیدیں نہیں باندھنی چاہے کہ پاکستان سمیت ان ملکوں میں اسلامی نظام قائم کریں گے صلیبیوں کے زیر قبضہ مقامی اور بین الاقوامی جادو گر الیکٹرونک نے امن پسند مسلم دنیا کو دہشت گرد ثابت کر دیا ان حالات میں ایک ہی راستہ راہ گیا ہے کہ جیسے مسلمانان برصغیر نے قائد اعظم کی کمان کے اندر ایک پر اُمن تحریک بر پاہ کرکے پاکستان حاصل کیا گیا تھا ایسی ہی تحریک مسلمانان پاکستان برپاہ کر کے اس میں اسلام کا بابرکت نظام قائم کرنے کی جد و جہد کی قسم کھانی چاہیے اللہ مسلمانان پاکستان کی اس خواہش کو پایا تکمیل تک پہنچائے آمین۔