اسلامی تاریخ میں اہم ترین باب اسلامی تہذیب و تمدن کا ظہور ہونا ہے۔جس کی اساس یہ تھی کہ مالدار و کشادہ دل لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے وعدووعید سے مرعوب ہوکر اپنی دولت میں سے کچھ حصہ مدارس و جامعات اور ہسپتال و رفاہی کاموں کے لیے وقف کردیتے تھے۔ اس میں یہ امر پوشیدہ ہوتاتھا کہ وقف شدہ مقام پر یاتو مدرسہ و ہسپتال سمیت کسی بھی فلاح و بہبود کے کام میں اس کو استعمال کیا جائے یا پھر اس جگہ،باغ، دکان وغیرہ سے حاصل شدہ آمدن سے علماء ،طلباء وغیرہ کو وظیفہ جاری کیاجائے۔یہ خیر کا سلسلہ برابر چلتارہاکہ اہل دل راہ خدامیں مشغول و مصروف علماء اور طلبا کی مدد اس لئے کرتے رہے کہ وہ علم کی شمع کو روشن رکھتے ہوئے انسانوں کو تعلیمات اسلامیہ کی تعلیم دیتے رہیں۔ان اوقاف کی اہمیت اس قدر تھی کہ کوئی بھی فرد یاحکومت اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتاتھاکیونکہ یہ وقف اللہ کے نام پر کیے جاتے تھے اور انسانوں کو اس میں تصرف کی اجازت نہ تھے،اوراس کے تمام محاصل خیر و فلاح کے کاموں میں خرچ کیے جاتے تھے۔یہ وہ سبب ہے جس کی وجہ سے اسلامی تہذیب و ثقافت کو دنیا میں خلعت ملا۔علمی و معاشرتی بلندیوں کے پیچھے اوقاف کا کلیدی کردار رہاہے۔ان اوقاف میں بعض ایسے بھی تھے جو معاشرے میں نکاح کو فروغ دینے کے لیے نوجوان بچوں اور بچیوں کے اخراجات اداکرتے تھے اور اسی طرح نوجوانوں کاروبار کرنے میں بھی مدد کرتے تھے تاکہ اللہ جل شانہ ان کے رزق میں برکت ڈال دے۔
اوقاف اسلامی کی مشروعات میں فراوانی تھی کہ ان وقف شدہ چیزوں کے ذریعہ سے ہسپتالوں کے اخراجات برداشت کیے جاتے ،ڈاکٹر و عملہ کی تنخواہیں ،مریضوں کو کھانا پینا وغیرہ،بزرگ و عورت اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کی معاونت ،مریض کی تیمارداری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کا سامان بھی کیا جاتاتھا جو مریض کوتسلی و تشفی دینے پر معمورتھے۔اسی طرح بڑی عمر کے لوگوں کی خدمت پر بھی لوگوں کو معمور کیا جاتاتھا تاکہ وہ کبر سنی میں راحت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ان اوقاف میں ایک اہم شعبہ یہ بھی تھا کہ جو لوگ مدارس اور مساجد میں جاکر تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام اس طرح کیا جاتاکہ اساتذہ گھروں میں جاکر ان کو تعلیم دیتے تھے۔اسی طرح یتیموں کی کفالت کیلئے بھی وقف قائم تھے۔اوقاف ایسا شعبہ ہے جو معاشرے میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کرچکا تھا یہاں تک کہ خیر کے کاموں میں حصہ لیتے وقت جانوروں کی بھی حفاظت و دیکھ بھال کا اہتمام کیا جاتاتھا۔
یہ بھی معلوم ہونا چاہیے ایسے وقت میں حکومت کے خزانے سے ایک انا بھی خرچ نہیں ہوتا تھا بلکہ ان اوقاف پر خرچ کرنے کا اس قدر انتظام کیا جاتا کہ گورنر شہر مختلف رفاہی اداروں کا قیام لمحہ بالمحہ عمل میں لاتے رہتے تھے کہ کبھی دل کا ہسپتال قائم کیا جارہاہے تو کبھی جذام کی بیماری کا کبھی ہڈیوں کے علاج کا ہسپتال اور اسی طرح مدارس و جامعات کی اس قدر کثرت ہوئی کہ جو نوجوان کام کاج سے تہی دامن تھے ان کو روزگار کے مواقع میسر آنے لگے۔معاشرے کی پختگی کے اس اہمم عنصر کے راستے میں کبھی روکاوٹیں نہیں ڈالی گئی ۔
بدقسمتی کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے جب برصغیر میں انگریز داخل ہواتو اس نے یہاں سکونت اختیار کرکے ملک پر قبضہ کرلیا تو اسلامی اوقاف کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔جس کے نتیجہ میں لوگوں کو حق بات کی تلقین اور پرمسرت زندگی بسر کرنے کی دعوت مفقود ہوگئی کیونکہ انگریز نے خیر کے کاموں کو انجام دینے کے ذرائع کو سلب کرلیا تھا اسی بناپر مسلم معاشرہ الٹے قدم چل پڑا ،اسلامی تہذیب و ثقافت میں کسافتیں ظاہرہونا شروع ہوگئیں۔بیماریاں پھیل گئیں اور لوگوں کے مرنے کی شرح میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا۔ان کشیدہ حالات سے بیزار ہوکر بعض علماء بھی نان شبینہ کے حصول کی خاطر انگریزوں کے ہمنوابن گئے اور ان کی مرضی و خواہش پر مطلوبہ امور میں پیش قدمی شروع کردی تھی۔
اس سیاسی تسلط نے بہت سے خطرات کو جنم دیا جس سے انسانی معاشرہ دوچا ر ہواوہ یہ کہ جب اوقاف اسلامی کو حکومتوں نے چھین لیا تو اس کا بدیہی نتیجہ نکلا کہ عوام ان حکمرانوں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ چور حکومت ہے جو لوگوں کے صدقات کو چرارہی ہے۔اور یہ سیاسی نظام چوری کا منبع ومصدر ہے۔اس کے اثرات سے شرق و غرب کے تمام اسلامی ممالک متاثر ہوئے۔لوگوں نے جب بے رخی کی تو حکومت پر یہ سارا بوجھ پڑا کہ اب وہ کوئی بھی ادارہ قائم کریں تو اپنی مدد آپ کریں۔اس کے سبب حکومت دنوں میں دیوالیہ پن سے دوچار ہونا شروع ہوگئیں۔اس کے ساتھ انسانی معاشرہ میں امیر و غریب کی تفریق نے جنم لیا تو کیمونزم،سوشل ازم ظاہرہوئے جن کی بے اعتدالیوں و بے راہ روی کی وجہ سے امیر و غریب باہم متحارب ہوکر کمزور سے کمزور تر ہوگئے۔
دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت نے کس طرح شرق و غرب میں فلاح و بہبود اور خوشحالی کے جھنڈے گاڑھے تھے اور وہ انسانوں کی ہر لحاظ سے خدمت کرنے میں مصروف عمل ہی نہیں رہی بلکہ کامیاب بھی ہوئی۔اسلامی معاشرے نے انسانیت کی خدمت بغیر کسی تمیز مذہب و نسل کے ہمیشہ جاری رکھی۔اس میں شک نہیں کہ ابھی بھی لوگوں میں خیر کا جذبہ موجزن ہے اور وہ تعلیم و صحت کے شعبہ جات ہوں یا نکاح کو عام کرنے کی کوشش ،اسی طرح مساجد و مدارس کے قیام کی تحریک سبھی میں اصحاب ثروت اپنی مال و دولت کو خرچ کرتے نظر آتے ہیں۔ایسا کیوں نہ کریں قرآن کریم نے تو تلقین ہی یہ کی ہے کہ”نیک کام کروشایدتم فلاح پاجائو”۔