تحریر : پروفیسر مظہر کیا یہ نمرود کی خُدائی ہے کہ بندگی میں بھی بھلا نہیں ہوتا۔ سَتّر برس پہلے ہمارے بزرگوں نے بڑے ذوق و شوق اور جوش و جذبے سے زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا ۔ نام اِس کا مملکتِ خُداداد تھا کہ اِس کی بنیاد لا اِلہ ۔۔۔۔ پر رکھی گئی اور وعدہ رَبّ ِ علیم و خبیر سے کہ اِسے اسلام کی تجربہ گاہ میں ڈھالیں گے لیکن ہوا یہ کہ قائد کی جیب کے کھوٹے سِکّوں نے اِس کا وہ حشر کیا کہ یہ اسلامی جمہوریہ بن سکا نہ سیکولر جمہوریہ ۔ البتہ چوں چوں کا مربہ ضرور بن گیا ۔ تب سے اب تک ہم یہ فیصلہ بھی نہ کر سکے کہ قائد اِسے اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے یا سیکولر ۔ عجب افراتفری کا عالم ہے کہ ایک طرف علماء تلواریں سونت کے کھڑے ہیں تو دوسری طرف لبرل اور سیکولر ۔ نقصان مگر اُن مجبور و مقہوروں کا جو نانِ جویں کے بھی محتاج ۔ قحط الرجال کا یہ عالم کہ نگاہوں میں کوئی جچتا ہی نہیں ۔ یہی سبب کہ قوم کبھی ”روٹی ، کپڑا اور مکان” کی طرف بھاگتی نظر آئی تو کبھی ”میڈ اِن پاکستان” کی طرف ۔ جب کچھ بَن نہ پڑا تو نئے پاکستان کے دعویداروں کے پیچھے لپکی لیکن صحناِ چمن میں آمدِ بہار کے آثار مفقود ۔ ہرطرف خزاؤں کے ڈیرے اور بادِ سموم کے تھپیڑے۔ لاریب یہ رہنماؤں کی رہزنی کا شاخسانہ ہے کہ اب یہاں آمریتوں کے ڈیرے اور مارشل لاؤں کے بسیرے ہی نظر آتے ہیں۔
اگر کبھی پا شکستہ جمہوریت آتی بھی ہے تو اقتدار پھر بھی اُنہی کے گھر کی باندی اور دَر کی لونڈی نظر آتا ہے جو گزشتہ چھ عشروں سے ہمہ مقتدر ہیں ۔ اگر مسندِ اقتدار کے شتاب کار حریصوں نے اپنا وتیرہ نہ بدلا تو وہی مقتدر رہیں گے اور قوم کسی رہرو کی تلاش میں سَرگرداں۔ حالات دِگرگوں تو تھے ہی لیکن آمر مشرف کے دَور میں خود رَو ”جھاڑ جھنکار” کی طرح اُگنے والے نیوز چینلز نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ۔ بات کا بتنگڑ بنانے میں یہ یَدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔ اِن کے نزدیک صحافت ، عبادت نہیں کاروبار ہے ، ایسا منفعت بخش کاروبار کہ جس کا کوئی ثانی نہیں۔ چہ عجب کہ اِنہیں ضمیر کی خلش بھی بے چین نہیں کرتی ۔ بات اتنی سی تھی کہ وزیرِ اعظم نے ڈان لیکس کی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کے عین مطابق متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو عمل درآمد کے لیے ہدایت نامہ جاری کیا جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا انتہائی حیرت انگیز ردِ عمل ایک ٹویٹ کی صورت میں سامنے آیا ۔ اُنہوں نے ٹویٹ کیا کہ ڈان لیکس کا نوٹیفیکیشن نا مکمل ہے اور رپورٹ اِنکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے اِس لیے پاک فوج ڈان لیکس کے معاملے پر اِس نوٹیفیکیشن کو مسترد کرتی ہے ۔ بجائے اِس کے کہ الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز اور تجزیہ نگار اِس معاملے پر مدبرانی گفتگو کرتے اور معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ، اُنہوں نے طوفان برپا کر دیا۔
ٹویٹ کے بعد دبنگ وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خاں نے بجا طور پر کہا ”ٹویٹ کسی بھی ادارے اور جمہوریت کے لیے زہرِ قاتل ہے ۔ ڈان لیکس پر نوٹیفیکیشن جاری ہی نہیں ہوا ۔ نوٹیفیکیشن وزارتِ داخہ نے جاری کرنا ہے ۔ نوٹیفیکیشن جاری ہی نہیں ہوا تو بھانچال کیسے آگیا”۔ حقیقت یہی ہے کہ وزیرِاعظم کے ہدایت نامے کو غلط پڑھتے اور سمجھتے ہوئے ٹویٹ کرنے میں جلد بازی سے کام لیا گیا ۔ اگر وزیرِاعظم کا آرڈر وہی ہوتا ، جیسا کہ آئی ایس پی آر نے سمجھا تو پھر بھی ایسا ٹویٹ بہرحال مناسب نہیں تھا جو جَگ ہنسائی کا سبب بنا ۔ کیا دنیا میں کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی ماتحت ادارہ ملک کی مقتدر ترین ہستی کے ڈائریکٹو کو بیک قلم مسترد کر دے ؟۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ پہلے وزیرِاعظم ہاؤس سے رابطہ کرکے اپنے تحفظات پہنچائے جاتے اور اگر تشفی آمیز جواب نہ ملتا تو پھر بھی گھر کی بات گھر ہی میں رکھی جاتی اور اُسے یوں پبلک کرکے اپنی ، بھَد نہ اُڑائی جاتی ۔ پہلے ہدایت نامے کو نوٹیفیکیشن سمجھ لیا گیا اور پھر اُس پر ایسا ردِ عمل جا کبھی دیکھا نہ سُنا ۔ نوٹیفیکیشن تو بہرحال انکوائری کمیٹی کی سفارشات کے عین مطابق ہی جاری ہونا تھا کیونکہ حکومت بار بار اِس کا عندیہ دے چکی تھی ، اِس کے علاوہ نوٹیفیکیشن کا استحقاق بھی صرف وزارتِ داخلہ کے پاس ہی تھا ، پھر اتنی جلد بازی کیوں؟۔ شاید طاقت کا نشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
وزیرِاعظم کی طرف سے جاری ہدایت نامہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹویٹ کے بعد پیدا ہونے والی غلط فہمی کے بعد ریٹنگ کے حریص گِدھ اِس خبر پر جھپٹ پڑے اور جلتی پر تیل ڈالنے کا حق ادا کر دیا ۔ اُنہوں نے سوچا تک نہیں کہ اِس خبر سے بین الاقوامی طور پر کتنی سبکی ہو رہی ہے اور یہ رویہ ڈگمگاتی جمہوریت کے لیے کتنا سُمِ قاتل ہے لیکن اُنہیں اِس سے کیا ، اُنہیں تو ”پیٹ پوجا” کے لیے مواد چاہیے تھا جو آئی ایس پی آر نے فراہم کر دیا ۔ اُدھر اپوزیشن نے بھی اِس معاملے کو اچھالنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔ حٰرت اِن مہربان سیاستدانوں پہ ہوتی ہے جو دعویٰ تو رہنمائی کا کرتے ہیں لیکن اُن کے قول و فعل سے تضادات سامنے آتے ہی رہتے ہیں ۔ ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ آنے سے پہلے یہی لوگ بَرملا کہتے تھے کہ ”مُک مکا” ہو گیا ہے لیکن آج وہی لوگ یہ کہتے پائے گئے کہ اِس واقعے کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ سول اور عسکری قیادت ایک صفحے پر نہیں۔