اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے مملکت خداد کا تصور و نظریہ پیش کرنے کی سعادت ایسے شخص کو عنایت کی جسے شرق و غرب میں مفکر و مدبر اور عظیم اسلامی سکالر کے طورپر جانا جاتاہے۔مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ اقبال ہی وہ شخصیت ہیں جن کی خدادا آفاقی صلاحیتوں کے اپنے اور بیگانے سبھی معترف ہیں اور علامہ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا تصور صرف اس لئے پیش کیا تا کہ مسلمان اس آزاد ریاست میں مکمل آزادی کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل کرسکھیں اور اس ریاست میں کسی بھی غیر مسلم ہندو یا انگریز کی بالادستی نہ ہو ۔علامہ اقبال نے اپنی نظم و نثر میں واشگاف انداز میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص اور ان کی دینی و ملی حمیت و غیرت کو بیدارکرنے کی سعی اور کوشش کی ۔اگرچہ علامہ اقبال کی اپنی زندگی میں یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔مگر قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانان ہند نے مغربی اور مشرقی اکثریتی حصہ پر مسلم ریاست قائم کروالی۔
علامہ اقبال مسلم ملت کو بیدار کرنے کے لئے جو پیغام دیا ہے اس میں واضح کردیا ہے کہ دنیا بھر میں محنت و لگن اور کوشش و جدوجہد سے زیرنگیں معاشرے کو برتری عنایت کرنے کی سعی کی جائے اور یہ سب جبھی حاصل ہوگا جب ہم عالم میں نبی آخر الزمانۖ حضرت محمدمصطفیۖ احمد مجتبیٰۖ کا نام نامی سربلند کردیں گے۔پاکستان اسلامی ریاست اور کلمہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی اور علامہ اقبال و قائد اعظم نے پاکستان کو اسلامی نظام کے نفاذ کا خواب دیکھتے تھے اسی سبب انہوں نے تحریک و آزادی کو مئوثر اور کارگر ثابت کردیا ۔آج جب مسلمانانِ عالم علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہم منا رہے ہیں تو اس موقع پر علامہ اقبال کی روح اپنے مرقد میں تڑپ رہی ہوگی ۔وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جس قوم کو بلندی فکر عنایت کی اور الگ ریاست کے حاصل کرنے کا جذبہ دیا اور ان کو شاہین اور خودی کا درس پڑھایا وہ آج اسلام کو اور نظریہ پاکستان کو پس پشت ڈال چکی ہے ،اور اس قوم کے قائدین کے قلوب و اذہان نے خودی اور جوانمردی کے درس کو فروگذاشت کردیا۔صرف یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی واحد وحدت کی نشانی و علامت ذات رسول معظمۖ کی عزت و عظمت اور حرمت پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے عدالت ہو یا حکمران علامہ اقبال کے کلام سے آغاز کرکے شاتم رسولۖ آسیہ مسیح کو بیک جنبش قلم بری کردیتے ہیں۔
آج علامہ اقبال کے پیغام اور ان کی دعوت پر شب خون مارا جارہاہے کہ اسلامی مملکت کی اساسی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے امریکہ و یورپ اور اسرائیل کی دریوزہ گری کرنے کے ساتھ ہی دشمن اسلام طبقہ قادیانیت کو ملکی منظر نامے میں بالا دستی و جگہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔آج اقبال کے پاکستان میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ جس کو علامہ نے نبی آخرالزمانۖ کی دشمنی کرنے پر مرزا غلام قادیانی پر سب سے پہلے کفر کا فتویٰ دیا تھا آج اسی مرزا قادیانی کی جماعت کو پاکستان میں ببانگ دہل کشت و خون پھیلانے کی اجازت دی جاچکی ہے۔ عاطف قادیانی کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اقتصادی کونسل کا رکن مقرر کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے پر اثر احتجاج پر ان کو نکالا جاتاہے کونسل سے یہی نہیں سینٹ اسمبلی میں ناموس رسالت ایکٹ میں ترمیم کی کوشش کی جاتی ہے۔اور ظلم در ظلم ہے کہ جو جماعت خود کو اقبال کا شاہین قرار دیتی ہے وہ فکر اقبال سے منحرف ہوتے ہوئے اسرائیل جو کہ یہودیوں کی عرب خطہ پر ناجائز ریاست ہے کا طیارہ پاکستان پہنچتاہے اور تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ میں اسرائیلی حکومت سے معاہدہ کرنے کی تجاویز دیتے نظر آتے ہیں۔شاہینوں کی جماعت کا قائد یورپی ممالک کو بطور مثال پیش کرتے ہیں جبکہ اقبال نے مغرب اور اقوام مغرب کے افکار و نظریات پر شدید تنقید کی اور ان کی چیرہ دستیوں سے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ وہ کسی صورت مسلمانوں کے معاون و مددگار نہیں ہوسکتے۔
بات تو اس قدر آگے بڑھ چکی ہے کہ پاکستان آج ایک نازک دور سے گزر رہاہے اور اس عالم میں جب ہمارے دنیا پر قائم و دائم اور باقی رہنے کا ماسوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ ہم لمحہ بھر کے لیے بھی زندہ ہوں تو محبت اللہ اور محبت الرسول کو فراموش نہ کریں اس کے مقابل میں لاکھ ہمیں راحتیں اور آسائشیں ہی کیوں نہ میسر کی جانے کی پیش کش کی جائے مگر افسوس موجودہ حکمران طبقہ نے صرف بیل آئوٹ پیکج کی منظوری و حصول کی خاطر شاتم رسولۖ آسیہ ملعونہ جس کو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے توہین رسالت کرنے کے اعترافی بیان کی روشنی میں سزائے موت کا حکم دیا تھا ۔مگر اسی گستاخہ کو عالمی دبائوپر ٹھیک اس دن عدالت سے بری کروایا جاتاہے جس دن راجپال کو واصل جہنم کرنے والے جری سپوت غازی علم الدین کو شہید کیا گیا۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوتی عدالت نے فیصلہ لکھتے وقت علامہ ہی کے شعر کے ذریعہ سے اپنی ایمانی محبت کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی مگر انجام کار کے طورپر شاتم رسول ۖ کو باعزت بری کردیا ۔عدالت نے عمداً و قصداً اس کیس میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی شاہینوں کی جماعت کے قائد نے عشق رسولۖ سے دلوں کو منور کرنے والوں کو عدالتی فیصلہ پر ردعمل دینے پر اپنے نشانہ پر لیا اور ان پر ناجائز و بے بنیاد مقدمات قائم کرنے کے ساتھ ان کو جیلوں میں قید بھی کردیا۔
ملک جب اس قدر شدید بحرانی کیفیت سے دوچار تھا اسی اثناء میں دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا سمیع الحق کو عین اس وقت شہید کردیا جاتاہے کہ جب وہ حکمران جماعت کے قائد پر شدید تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے مولانا سے ملاقات میں آسیہ ملعونہ کی رہائی کی حمایت نہ کرنے پرمتحیر چہرے کے ساتھ ایسے تکنے لگا کہ میں اس فیصلہ کی تائید کروں ۔جبکہ میں نے وزیر اعظم پر واضح کردیا کہ ایسا کیا گیا تو تحریک انصاف کی حکومت کو ذلت کے قعر میں گرنے سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ان تمام روح فرسا منظر نامے کو بپا کرنے کے بعد عید میلادالنبی کو تزک و احتشام سے منانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی سالہاسال سے امریکہ میں بے گناہ قید کی صعوبت برداشت کرنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے رہائی کے لیے اقدام کرنے کی کوشش کا اظہار کیا جارہاہے ۔اگر چہ ان ہر دو امر کو ہم سراہتے ہیں تاہم میلاد النبی سے زیادہ ضروری مقصد بعثت محمدۖ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور عافیہ صدیقی کی رہائی بھی ضروری ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ حکومت عدالت عظمیٰ کے متنازعہ فیصلہ اور اس کی تائید و حمایت کرنے پر اللہ تعالیٰ معافی کے خواستگار ہونے کے ساتھ اگر اب تک آسیہ ملعونہ کو ملک سے بھگانہیں دیا گیا تو اس کو تاوقتیکہ نظر ثانی اپیل کا فیصلہ نہیں آجاتا ملک سے باہر نہ جانے دیں۔ اور اگر حکومت نے آسیہ ملعونہ کو رہا کرکے بیرون ملک بھیج دیا ہے تو پھر انتقام الٰہی کا انتظار کریں کہ اللہ تعالیٰ نبی مکرمۖ کے دشمنوں کو کسی صورت معاف نہیں کرتا۔اسی لئے مفکر اسلا م اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدۖ سے اجالا کر دے
Atiq ur Rehman
تحریر : عتیق الرحمن (اسلا م آباد) 0313-5265617 atiqurrehman001@gmail.com