تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کریم رب لم یزل کی بے پناہ حمد وثناء اور تاجدار انبیاء وجہ تخلیق کون ومکان جناب محمد رسول اللہ کی پاک ذات پر درودوسلام کے کروڑوں نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم ملکی حکمرانوں کے جمہوریت بچائو کے بیانات کو سامنے رکھ کر زیر نظر تحریر مرتب کی ہے قائین کرام کی قیمتی آراء کا انتظار رہے گا۔
قارئین کرام آج ہم جس ملک کے شہری ہیں اسی دنیا کے نقشہ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے الحمد لللہ کہ اس میں اکثریت مسلمانوں کی ہی ہے اقلیتیں بھی ہیں جنہیں وطن عزیز انکے بنیادی حقوق دیتا ہے اسلام جوکہ اللہ اور اسکے رسول ۖ کا پسندیدہ دین ہے عین انسانی فطرت کے مطابق یہ نہ تو اتنا آسان تھا جتنا آج کے انسان نے سمجھ لیا اور نہ اس میں ایسی گتھیاں تھیں جو آج کے بکائو ملائوں نے ڈال دیں امت محمدیہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے بجائے اس میں گروہ بندی اور دھڑہ بندی کی وہ کریہہ صورت بنا دی گئی کہ آج اغیار بے دھڑک مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جبر و اذیت میں بھی مبتلا کررہا ہے اسلام کے احکامات اللہ کریم کے آفاقی فرمودات جو بحمد للہ شکل قرآن میں ابد لآباد تک موجود رہینگے اور جنکی وضاحت حدیث نبوی ۖ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں مگر کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد سے اب تک کوئی ایسا دین دار شخص اس کا حکمران بنا جو کتاب اللہ اور فرمان محسن کائنات کا علم رکھتے ہوئے ایسے قوانین بناتا جو ایک مسلم معاشرہ کی ضرورت تھے ہر گز نہیں تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں گوروں سے آزادی کی جدو جہدکے وقت ہی اس تحریک میں ایک ایسا گروہ شامل ہوگیا جس کا مطمع نظر صرف اقتدار تھا انہیں کسی بھی صورت کسی بھی شکل میں ایک ایسی ریاست درکار تھی جہاں وہ اپنی رعایا کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھ سکیں بٹیر کا شکاری جب شکار شروع کرتا ہے تو جال میں پہلے دوچار بٹیر پھانس کر جال لگاتا ہے جن کی آواز پر دیگر بٹیر آکر اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بالکل اسی کلیہ پر آزادی کی جدو جہد میں کلمہ طیبہ کو شامل کیا گیا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کا مستانہ وار نعرہ لگتے ہی برصغیر کے مسلمانوں نے اپنا تن من دھن سب آزادی پر صرف کر دیا اور ہجرت کی تیاری کرلی اس وقت انکی نظر میں وہ اسلامی ریاست تھی جسکی بنیاد رحمت عالم جناب محمد مصطفی کریم ۖ نے ہجرت مدینہ کے وقت رکھی جب ہر مہاجر کو اسکے انصار بھائی نے اپنا آدھا مال بھی دے دیا زمین بھی دی اور یہاں تک کہ اپنے سگے بھائی کی طرح برابر کا شریک بنا لیا برصغیر کی تقسیم کے وقت ہی ہجرت کرکے آنے والوں کی آنکھیں کھل گئیں جب مہاجرین کے کیمپوں سے رات کو جوان لڑکیاں غائب ہونے لگیں رہتی کسر زمینوں کی الاٹمنٹ کے وقت نکلی جب میراثی سید بن بیٹھے اور اس وقت کروڑوں کی جائیدادیں چھوڑ کر آنے والے ادھر آکر نائی موچی ترکھان جیسے پیشے اپنانے پر مجبور ہوگئے اسلامی سلطنت معرض وجود میں آچکی تھی پہلے گورنر جنرل جناب محمد علی جناح بن چکے تھے اور تاریخ کے مستند حوالہ سے بات کررہا ہوں اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ایک عالم دین شیروانی پہنے خراماں خراماں تشریف لائے تو انہیں یہ کہہ کر اجلاس سے نکال دیا گیا کہ یہ ملک مولویوں کے لیے نہیں بنا حضرت جب کوئی دینی مسئلہ ہوا آپ کو بلا لیں گے اور یوں دین کا علم رکھنے والوں کو دین دار طبقہ کو مکھن سے بال کی طرح نکال کر الگ کردیا گیا پھر اسی اسمبلی کی قانون ساز کمیٹی نے ایک ہندو کو وزیر قانون بنایا ایک ایسی ریاست جسکی بنیاد بقول بانی کے کلمہ طیبہ پر رکھی گئی۔
اس میں قائم اسلامی معاشرہ کے لیے قانون کا وزیر ایک ہندو بنیا ؟انہیں اس بات پر رتی بھی شرمندگی نہ تھی مگر وہ ہندو دھرم کا پکا نکلا وہ چند یوم کی رخصت پر بھارت گیا اور واپس نہ لوٹا پھر 1973 تک یہ ریاست بغیر قانون کے چلتی رہی اس دورانیہ میں اس اقتدار کے حریص ٹولہ نے اپنے محسن اور ملک کے بانی محمد علی جناح کو بھی قتل کردیا جسکی نہ کوئی کوئی رپٹ درج ہوئی اور نہ ہی کسی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا کیونکہ پلان اتنا مضبوط تھا کہ کوئی قتل کا تصور بھی نہ کرے قانون دینے والا ایک انقلابی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھا جو بنیادی طور پر ایک ڈکٹیٹر جنرل محمد ایوب خان کا چہیتا اور لاڈلا وزیر رہا میں نے آج بھی بہت سے بڑے بوڑھوں کو اس ڈکٹیٹر کے گن گاتے دیکھا ہے بڑے کہتے ہیں کہ ایوب دور پاکستان کی حکومت کا بہترین دور تھا آج ملک میں میثاق جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کے عیب چھپانے اور ہر کرپشن پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے والی دونوں بڑی پارٹیوں کے بعض منچلے جب ایک دوسرے کو ڈکٹیٹر کی پیداوار کہتے ہیں تو عجیب سنگین مذاق لگتا ہے بر سر اقتدار پارٹی کے بڑے شیر کو مرد مومن جنرل ضیاء الحق مرحوم اپنا بڑا بیٹا کہا کرتے تھے موصوف کی سیاست کا آغاز بھی مرد مومن کے دور میں ہوا اور اگر بھٹو زندہ ہے تو بے شک پوچھ لیں کہ وہ بھی جنرل محمد ایوب خان کو کس نام سے پکارتے تھے مرد مومن نے جب ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا تو تاریخ نے اپنے آپکو دہرایا تھا ورنہ یہ ملک تو پہلے دن سے ہی اسی قسم کی جمہوریت پر چل رہا تھا حرف کل کوئی نہیں ہوتا سوائے اللہ کے برگزیدہ بندوں کے ہر شخص میں کجی کوتاہی خامی ہوتی ہی ہے۔
مرد مومن کی بھی کچھ خامیاں ایسی سنگین غلطیاں بن گئیں کہ جن کا خمیازہ انہوں نے بھی بھگتا اور ہماری کئی نسلیں بھی بھگتیں گی اس وقت میاں برادارن نے جنرل صاحب کے جیتے جی کبھی جمہوریت کی بات کیوں نہ کی آج جب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اچھالتے بات غیر ملکی میڈیا تک پہنچی پانامہ پیپرز کا فیصلہ ہوا جناب بڑے میاں صاحب نا اہل ہوئے تو بات جمہوریت کو خطرہ پر اٹک گئی ہمارے تو تمام حواری جمہوریت کے لیے خطرہ گرداننے لگے ہمارے سیاست دانوں کے نزدیک جمہوریت کی تعریف انکا اقتدار میں رہنا ہی ہے باقی جو اقدام بھی ہوں وہ جمہوریت کے لیے زہر ہیں۔
آہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اسلام میں جمہوری اقدار ایسی ہیں کہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق کے زمانہ میں یمن کے بادشاہ نے کچھ چادریں تحفہ میں بھجوائیں حاکم وقت نے وہ چادریں تمام صحابہ میں تقسیم فرما دیں ہر چادر کی لمبائی چوڑائی اتنی تھی کہ قمیض بنائیں تو تہہ بند نہیں بنتا تھا اور اگر تہہ بند بنائیں تو قمیض نہیں دو چار دن بعد جب حضرت عمر نے اسی کپڑے کا پورا سوٹ پہنا تو مسجد میں ایک عام آدمی نے انہیں کہا کہ اے امیر المومنین یا تو آپ نے ہمیں ایک ایک چادر دے کر خود دو لے لی ہیں یا پھر خود بڑی چادر رکھی اور ہمیں چھوٹی دی آپ قد اور جسامت میں بھی ہم سے بڑے ہو ہمارا سوٹ نہ بنا آپکا کیسے بن گیا۔
ایک عام آدمی نے انہیں کہا کہ اے امیر المومنین یا تو آپ نے ہمیں ایک ایک چادر دے کر خود دو لے لی ہیں یا پھر خود بڑی چادر رکھی اور ہمیں چھوٹی دی آپ قد اور جسامت میں بھی ہم سے بڑے ہو ہمارا سوٹ نہ بنا آپکا کیسے بن گیا کسی پولیس والے نے اس شخص کو گرفتار نہ کیا اور نہ ہی حاکم نے اسے زندان میں بند کرنے کا حکم دیا بلکہ آپ مسکرائے اور فرمایا کہ میرے بیٹے عبد اللہ کو بلالائو جب وہ سائل حضرت عبد اللہ کو لے آیا تو آپ امیر المومنین نے بیٹے کو حکم دیا کہ میرا سوٹ تم نے بنوایا اب وضاحت بھی تم ہی کرو تو حضرت عبد اللہ ابن عمر نے اس سائل جائو اور میرے بیٹے عبد اللہ کو بلا لائو جب حضرت عبد اللہ ابن عمر آئے تو سائل کے سامنے کھڑے ہوکر بتایا کہ ایک چادر میری اور ایک میرے ابا حضور کی دونوں ملا کر اباحضور کا تہہ بند اور قمیض سلوایا گیا ہے۔
آج ہمارے حکمران اپنا علاج معالجہ بھی لندن سے کرواتے ہیں کپڑا بھی امپورٹڈ جوتے بھی امپورٹڈ تو میری تو حاکموں سے التجا ہے کہ وہ حکومت کرنیکے لیے کوئی ملک بھی اور دیکھ لیں ہماری اس لولی لنگڑی جمہوریت پر کوئی شب خون مارتا ہے تو ہم نمٹ لیں گے اور ہمیں ایک نئے سرے سے اس معاشرہ کی بنیاد رکھنی ہوگی جس کے سپنے دیکھ کر ہمارے بڑے اپنا سب چھوڑ چھاڑ کر ادھر آئے والسلام۔۔۔