پینٹاگون (جیوڈیسک) امریکی فوج نے ایسے شامی باغیوں کی چھان بین اور چناؤ کا عمل شروع کر دیا ہے جنھیں متوقع طور پر اگلے چند ہفتوں میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف تربیت دی جائے گئ۔ جمعے کو امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون کے پریس سیکرٹری ایڈمرل جان کربی نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ سو کے قریب اعتدال پسند شامی باغیوں کی چھان بین کا عمل جاری ہے جو تربیتی پروگرام میں شامل ہوں گے۔ جان کربی کے مطابق ان کے علاوہ ’مزید 1500 قابل امیدواروں کی شناخت ہوئی ہے جو تربیتی پروگرام میں شمولیت سے قبل چھان بین کے مزید سخت عمل سے گزریں گے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انھوں نے بتایا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ ’اگلے چار سے چھ ہفتوں میں ہم اصل تربیت کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔‘ یاد رہے کہ ایک ہفتے قبل ہی امریکہ اور ترکی نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق ترکی نے ان باغیوں کی تربیت کے لیے جگہ دینے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ اس تربیت میں امریکہ اور شام کے مساوی تعداد میں دستوں کی شرکت ہوگی۔ یہ جگہ ان چار جگہوں میں سے ایک ہے جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی شامی باغیوں کی تربیت کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔
پینٹاگون کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تربیت شامی باغیوں کو شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے کے لیے دی جارہی ہے لیکن اس کا مقصد سول وار میں شامل ہوکر صدر بشار السد کی حکومت گرانا نہیں۔ تربیتی منصوبہ پینٹاگون کے مطابق پہلے سال میں بھرتی ہونے والے 5000 شامی باغیوں تربیت کرسکتا ہے۔ اس پروگرام پر پانچ سو کڑور امریکی ڈالر خرچ ہوں گے جبکہ دولتِ اسلامیہ سے شام کے مشرقی علاقوں کا قبضہ واپس لینے کے لیے اسے 15000 باغیوں کی ضرورت ہوگی۔
انھوں نے بتایا کہ شامی باغیوں کی تربیت گروہی انداز میں ہوگی جس میں ابتدائی طور پر 200 سے 300 گروپ بنائے جائیں گے اور ایک سال میں 5000 سے 5500 تک شامی باغیوں کی تربیت کی جائے گی۔ لیکن اس سوال پر کہ تربیت کے بعد شامی باعیوں کی معاونت کیسے کی جائے گی کے جواب میں پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔
اس سے قبل پینٹاگون کے ہی ایک ترجمان کرنل سٹیو واررن نے جمعرات کو کہا تھا امریکی فوج دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی تربیت کے لیے 400 سے زائد فوجی اہلکار شام بھجوانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ترکی، قطر اور سعودی عرب نے شامی باغیوں کی تربیت کے لیے میزبانی کی پیشکش کی ہے۔ اس پروگرام پر پانچ سو کروڑ امریکی ڈالر خرچ ہوں گے جبکہ دولتِ اسلامیہ سے شام کے مشرقی علاقوں کا قبضہ واپس لینے کے لیے اسے 15000 باغیوں کی ضرورت ہوگی۔
امریکہ کی جانب سے شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی حملے بھی کیے جا رہے ہیں امریکہ کی جانب سے باغیوں کی تربیت کا پروگرام صدر براک اوباما کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے شام میں مقامی فوج کو میدان میں لا کر دولتِ اسلامیہ کو روکنا اور انھیں واپس دھکیلنا شامل ہے۔
لیکن شامی بغاوت پر اب سخت موقف رکھنے والے سنی مسلمان غالب ہیں جن میں دولتِ اسلامیہ سمیت القاعدہ کی حامی النصرہ فرنٹ بھی شامل ہے۔ اس صورتحال میں شام کی زمین پر اپنا حامی تلاش کرنا امریکہ کے لیے ایک پیچیدہ اقدام ہوگا۔ کانگریس میں موجود تنقید نگاروں کا موقف ہے کہ تربیت کی صورت میں شام میں حکومت مخالف عناصر کے لیے امریکہ کی جانب سے دی جانے والی یہ امداد تیز نہیں ہے۔
شامی سرحد کے پار عراق کے لیے صدر اوباما نے 3000 سے زائد امریکی فوجی دستوں کو اجازت دی ہے کہ وہاں موجود کرد فوج کی معاونت اور تربیت کریں۔ یاد رہے کہ شامی باغیوں کی تربیت کا امریکی منصوبہ اس سے قبل استنبول میں صدر اوباما اور شامی باغیوں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔