بیشک ، اِس سے انکار نہیں ہے کہ مدینے کے بعد سرزمین پاکستان ایک ایسی اسلامی ریاست ہے ،جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی ہے جس پر ہمہ وقت رب جلیل اللہ رب العزت اور سول کریم حضور پُرنور رحمت العالمین حضرت محمد مصطفیﷺ کی رحمتوں کا نزول جاری رہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستر سالوں سے کئی اندرونی اور بیرونی بحرانوں سے قوم آسا نی سے نکلتی آئی ہے۔
یقین جا نیئے اگر ہم یوں ہی اللہ کی رسی اور نبی کریم ﷺ سے وابستہ رہے تو ہماراایمان ہے کہ دنیا کی کو ئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے۔آج بھی پوری اُمید ہے کہ ہم آئندہ بھی اغیار اور مُ ´لک دُشمن عناصر کی جانب سے پیدا ہونے یا آنے والے کسی بھی مالی و معاشی اور سیاسی اور اخلاقی یا مذہبی یا جذباتی بحرانوں اور مشکلات و پریشانیوں سے اپنے ایمان اور یقینِ کامل اور ملی یکجہتی ، اتحاد و یگانگت کے ساتھ نبرد آزما ہوتے ہوئے سُرخرو ہوتے جائیں گے۔ اوراندر و باہر کے مُلک دُشمن عناصرکی ہر سازش ملیامیٹ ہوتی جائے گی۔
تاہم، راقم الحرف کو یہاں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہاہے کہ گزشتہ دِنوںسُپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے آنے والے ایک فیصلے کے خلاف کھلم کھلا طور پر ایک جذباتی طبقے کی جانب سے ریاست میں انصاف فراہم کرنے والے اداروں اور افواج پاک کے خلاف عوام کو اُکسایاجانا کسی بھی لحاظ سے کسی بھی مہذب ریاست کو زیب نہیں دیتاہے ،اور ایک ایسے ترقی پذیر ملک پاکستان میں تو کسی بھی طرح سے کسی طبقے کا یہ عمل ٹھیک قرار نہیں دیاجاسکتا ہے کہ کوئی طبقہ معزز ججز صاحبان سے اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر مشتعل ہوجائے؛ اور اپنے ہی اداروں کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لائے۔ اور حکومت کے خلاف دھرنا ہنی مون کا ایک نہ روکنے والا سلسلہ شروع کردے ؛ جس کا مقصد صرف اور صرف مُلک اور قوم کی بڑھتے ترقی اور خوشحالی کی جانب رینگتے قدم کو روکناہے بھلاایسے میں کون یہ برداشت کرے گا کہ کوئی طبقہ اپنے مذہبی جذبات کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر سیاست کچھ اِس طرح سے چمکائے کہ معصوم عوام کو اُکسا کر سڑکوں پر آئے اور سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچائے۔ایسے میں ریاست کی ذمہ داران پر یہ لازم ہوجانا کوئی عجب نہ ہوگا کہ وہ شر پسند عناصر کو لگام دینے کے لئے آئین اور قانون کے مطابق انتہائی قدم اُٹھائیں،آج یہ بات اُن عناصر کو لازمی سو چ لینی چاہئے کہ وہ اپنے اشتعال انگیز عمل سے کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا آج اِن کا یہ عمل اسلامی تعلیمات اور اسوہ حسنہ ﷺ کے مطابق ہے؟
بیشک ! اِس سے اِنکار نہیں کہ آج مُلک کا ایک مخصوص مائند سیٹ رکھنے والا موجودہ سسٹم سے ایک باغی اور احساس محرومی میں مبتلا ٹولہ اپنی سیاست چمکانے کے لئے اوچھے حربے استعمال کرکے مُلک اور عوام کو تباہی کے اُس دہانے کی جانب لے جاناچاہتاہے جو اسلام مخالف مُلک دُشمن عناصر کا ایجنڈاہے۔
اَب ایسے جذباتی مگر مُلک کو ترقی سے روکنے والے طبقے سے یہ عرض کرنا ہے کہ اِنہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خبردار، اَب مُلک اِس کا متحمل نہیں ہوسکتاہے کہ کوئی اُٹھے اور معصوم عوام کو اُکسا کر سڑکوں پر لائے اور سیاست چمکائے، اِس کے ساتھ ہی ایسے معصوم جذباتی عناصر کو اتنا تو معلوم ہونا چاہئے کہ قانون کا ہر فیصلہ شواہد اور حقائق کی روشنی میں ہی کیا جاتاہے، جبکہ آج سُپریم کورٹ کے تین رکنی معزز ججزصاحبان نے آسیہ مسیح کے معاملے میں جو فیصلہ دیاہے، یقینا یہ شرعی اور آئین و قانون کی روح کا جامع اور مکمل جائزہ لینے کے بعدہی عمل میں لایاگیاہے،مگر اِس کے باوجود بھی سمجھ دار عاشقانِ رسولﷺ کا یہ خیال ہے کہ شانِ رسالتﷺ کی گستاخی کی مرتکب غیرمسلم آسیہ مسیح کو پھانسی کی سزادیئے کے بجائے اِس خاتون کو معزز ججز صاحبان کارہائی کا حکم نامہ صادر فرمانا،اِن کی سمجھ سے تو بالاتر ضرور ہوسکتاہے ، مگر میرے یہ بھا ئی ، اتنا ضرور سمجھ لیں کے معز ز ججز صاحبان کا فیصلہ غلط نہیں ہوسکتا ہے ، تو بھا ئیوں بس، آپ اتنا سمجھ لیں کہ بعض معاملات میں ہمارے جذبات اور ہماری سمجھ اور ہماری مرضی کے مطابق فیصلے ہونالازمی بھی نہیں ہوتاہے۔ بلکہ فیصلے کرنے والوں پر ہم سے زیادہ دینی اور دنیاوی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ اِنہیں کس معاملے میں کیا فیصلہ کرنا ہے؟ایسے میں ہمیں کسی پر اپنی مرضی تھوپنے کے بجائے ،لازمی طور پر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یقینا فیصلے کرنے والوں کے سامنے ایسے حقائق ہوتے ہیں؛ وہ جن کی بنیادوں پر فیصلہ کرتے ہیں۔
جیسا کہ پچھلے سمجھ دار ہو کر بھی چند ناسمجھ عناصر کی جانب سے سُپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کے بعد مُلک بھر میں پیدا ہونی والی سیکیورٹی کی صورت حال کے پیش نظر عوام سے اپنے مختصرترین خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک انداز سے خبرردار کرتے ہوئے کہاہے کہ ریاست کا امن و سکون اور سرکاری اور نجی املاک کا نقصان برداشت نہیں کیا جائے گا،اِس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے مختصر ترین عوامی خطاب میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی واضح کردیاہے کہ چند مٹھی بھر افراد اپنی مرضی کے خلاف آنے والے سُپریم کورٹ کے فیصلے کو ہوا دے کر سڑکیں بند کرکے مُلک کے امن اور عوامی ا ملاک کو نقصان پہنچا ناچاہتے ہیں ، اِنہیں چاہئے کہ یہ ہوش کے ناخن لیں ، ورنہ ریاست اِن کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق نمٹے گی۔ غرض یہ کہ اَب بلاوجواز سڑکیں بند اور نقصِ امن پیدا کرنے والوں کو بھی سمجھ جانا چاہئے کہ یہ باز نہ آئے، تو ریاست پاکستان اِنہیں لگام ڈالنے کے لئے انتہا ئی قدم اُٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔کیوں کہ مُلک بار بار نقصِ امن کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔(ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com