اسلامی ریاست اور رعایا کے حقوق

Rights

Rights

تحریر : منظور احمد فریدی

اللہ جل شانہ کی لامحدود حمد وثناء اور فخر موجودات جناب محمد رسول اللہ کریم آقا ۖ کی ذات پر کروڑ ہا بار درود وسلام ہوں

اللہ احسن الخالقین نے انسان کو تخلیق فرما کر احسن تقویم ارشاد فرمایا وہ خالق یہ بھی فرماتا ہے وہ جیسے چاہے اپنی تخلیق کو ویسی صورت عطا کرے ۔با ب العلم امام المتقین حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم نے مخلوقات کی تین اقسام بیان فرمائی ہیں یعنی پوری کائنات کے ہمہ قسم مخلوق کی گروپ بندی کرتے ہوئے تین گروہ بیان فرمائے پہلا گروہ وہ ہے جو شعور رکھتا ہے مگر خواہش نہیں رکھتا دوسرا گروہ خواہش رکھتا ہے مگر فہم و شعور سے فارغ ہے تیسرا گروہ ایسا ہے جو یہ دونوں خصلتیں رکھتا ہے خواہش بھی فہم و ادراک کی طاقت بھی اور شعور بھی آدمی کی خوبیاں بیان فرماتے ہوئے حضرت علی فرماتے ہیں کہ خواہش کے پیچھے بھاگ کر اسے پورا کر لینا جانوروں کا کام ہے خواہش سے عاری ہونا فرشتوں کا کام ہے اور اپنی نفسانی خواہشات کو اپنی عقل کے تابع رکھتے ہوئے اللہ کی حدود میں رہنا اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر خواہشات کو ترک کر کے شکر ادا کرتے رہنا حضرت انسان کا کام ہے انسان مسجود ملائک تبھی ہے جب وہ انسانیت کے معیار پر پورا اترے ۔وطن عزیز ارض پاکستان اسی نظریہ پر وجود میں آیا کہ اللہ کریم کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے والوں کے لیے ایک الگ ریاست ہو جہاں وہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جس کی بنیاد نبی کریمۖ نے ہجرت مدینہ فرما کر مواخات مدینہ کے وقت رکھی جہاں مذہبی آزادی حاصل ہو مگر بد قسمتی سے اس ریاست کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ رہی جو مذہبی آزادی کو مذہب سے آزادی سمجھتے ہیں جس کے نتیجہ میں دین دار طبقہ اور دین کا خیال نہ رکھا گیا۔

امت کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لیے یہود ونصاریٰ کی چالوں کو سمجھنے کے بجائے کامیاب ہونے کے لیے زرخیزی مل گئی جس کا نقصان اس بھولی بھالی قوم کو یہ ہوا کہ آج یہ ایک قوم ہونے سے بھی بہت دور نکل گئی انسان مسجود ملائک ہے یہ اعزاز اللہ کریم نے جمیع بنی آدم کو بخش رکھا ہے اور یہ قوم ابھی تک نبی کے نور اور بشر ہونے پر ڈانگیں اٹھائے پھرتی ہے علماء حق اپنی تذلیل کے ڈر سے سیاست سے باہر ہوگئے اور نام نہاد ملائوں نے دین کے نام پر سیاست شروع کردی اور ہر بے دین حکومت سے اپنا حصہ مال غنیمت سمجھ کر وصول کرتے رہے قوم کو دین کے اتنے فرقے دکھا دیے کہ جب کوئی دین کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اس ڈر سے سمجھ ہی نہ پائے کہ کہیں گمراہ نہ ہوجائے دشمن جو کام جنگ و جدل سے نہ کر سکا ملاں نے وہ کام اتنی آسانی سے کر دیا کہ دشمن گھر بیٹھا آج اس قوم کو استعمال کرتا ہے اور یوں ہم وہ ریاست بنا بیٹھے جہاں حکمرانی کا تصور محض بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پالنے کے مترادف بن گیا جو ایک بار مسند اقتدار پر بیٹھ گیا اس نے اسے اپنے باپ دادا کی گدی سمجھتے ہوئے ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اپنی جائیدادیں بنا کر بھی اسے اقتدار کی ہوس سے نجات نہ مل سکی ۔اللہ نے جب اپنے محبوب وۖ کے ذریعے انسانوں پر حکومت کرنے کے احکام واضح فرمائے تو آپۖ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام نے اقتدار کو قوم کی نوکری اور خدمت کا بہترین روپ بنا کر پیش کیا۔

آج بھی اغیار انکے نام سن کر کانپ جاتے ہیں نبی علیہ السلام نے فتح مکہ کے وقت جو عام معافی کا اعلان فرمایا تو غرور کے بتوں کو بھی سجدہ کرنا پڑا آپۖ کے بعد جناب عمر فاروق نے اسلامی حکومت کی وہ مثال قائم کی کہ آج بھی مسلمان فخر سے بیان کرتا ہے مگر وطن عزیز میں کونسا اسلام نافذ ہوا اور کونسی جمہوریت کم از کم میری کلاس کے طبقہ کو تو اسکی سمجھ نہ آسکی جمہوریت اگر یہ ہے کہ چند خاندانوں کو شرفاء کے روپ میں اقتدار دے دیا جائے اور انکے حواریوں سمیت جو کوئی کچھ بھی کرے انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو تو ایسی جمہوریت سے آمریت اچھی اور اسلامی قوانین اگر یہ ہیں کہ جن باتوں سے اللہ اور اللہ کے رسول ۖ نے منع فرمایا ہے وہی عام ہوں اور جن باتوں کا حکم دیا ہے وہ کرنے والے احمق اور جاہل شمار ہوں تو پھر کیسا اسلامی ملک اور کیسے قوانین ۔جہاں ہر طاقتور اپنی طاقت کے بل بوتے کمزور کا استحصال کرے ظالم کو زبان سے برا کہنے والا بھی گرفت میں آئے اور غنڈے منصف بن بیٹھیں تو پھر وہ ملک نہ تو جمہوری رہا اور نہ اسلامی اس وقت اللہ کے عذاب کی توقع رکھی جا سکتی ہے مگر اللہ کریم ہے اور نبی ۖ کی ذات اسی زمین پر موجود ہے اس لیے ہم اجتماعی عذاب سے محفوظ ہیں ۔انتخابات سر پہ آگئے مگر ہم ایک مسلمان قوم بن سکے نہ ہم نے وہ سچے کھرے لوگ متعارف کروائے جو آگے آکر ہمیں قوم بننے کا سبق ہی دے دیں اب بھی ہم سے ووٹ مانگنے کون کون سی سیاسی پارٹیاں آئیں گی کوئی بچیاں نچانے والا تو کوئی بچیاں ساتھ ساتھ لے کر دکھانے والا گویا اب سیاست میں پبلسٹی کے لیے عورت کی تصویر کے بجائے عورت واہ میرے حکمرانوں اللہ اس قوم کو عقل سمجھ اور شعور عطا فرمائے آمین۔

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی