تحریر : رشید احمد نعیم، پتوکی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے ” اگر کوئی فاسق تمہارئے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تصدیق کر لیا کریں، ایسا نہ ہو کہ بعد میں تم کو اپنے کیے پر نادم ہو نا پڑے”ہم رسوا ہوئے تارک َ ِ قرآن ہو کر، اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا۔ اس کی جسمانی اور فطری ضروریات پوری کرنے کے لیے مادی وسائل پیدا کیے اور ذہن و روح کی راہنمائی کے لیے بھی اہتمام فرمایا۔خود انسان کو خیر و شر میں فرق کرنے کی صلاحیت اور ضمیرکی آواز عطا فرمائی۔اس کے علاوہ انسان کی کامل راہنمائی کے لیے انبیاء کرام مبعوث فرمائے اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں تاکہ انسان فلاح پا سکیں۔انسان کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرنے اور اس کو صراط ِ مستقیم سے آگاہ کرنے کے لیے عرش ِ معلی سےْْ قرآنِ حکیم کا نازل فرمایا۔ارشادِ خدا وندی ہے” اور تمہاری طرف ہم نے یہ کتاب نازل کی ہے ۔یہ حق لے کر آئی ہے۔اس سے پہلے جو آسمانی کتابیں آئیں ان کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ و نگہبان ہے”قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے”بلا شبہ یہ ذکر ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں”نبی کریمۖ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ نے آپۖ پر قرآن مجید نازل کیا۔یہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔جو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا دائمی ذریعہ ہے اور تمام سابق کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔قرآن ِ کریم انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کے متعلق راہنمائی کرتا ہے۔اس میں انسانی زندگی کی حقیقت ، خیر وشر، حلال و حرام ،اخلاقی تعلیمات سمیت زندگی کے ہر پہلوکے متعلق راہنمائی موجود ہے۔اس میں انسان کی آخرت کی زندگی کے بارے میں تفصیلی معلومات ہیں اور آخری زندگی کی اہمیت کو نہایت پُر تاثیر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔قرآن مجید انسان کی انفرادی زندگی ، اس کے اجتماعی معاشرتی حقوق و فرائض ،معاشی و اقتصادی امور کے متعلق بنیادی ہدایات، سیاسی و بین الا قوامی معاملات اور اخلاقی رویوں کے متعلق جامع تعلیمات پیش کرتا ہے۔ قرآن مجید انسانی راہنمائی کا خزانہ ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے ” اگر کوئی فاسق تمہارئے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تصدیق کر لیا کریں ، ایسا نہ ہو کہ بعد میں تم کو اپنے کیے پر نادم ہو نا پڑے” مگر چونکہ ہم اسلامی تعلیمات کو فراموش کے چکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم ہر طرف سے پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہماری زندگی میں سکون نام کی شے دکھائی نہیں دیتی ہے ۔ہم جو سنتے ہیں ، جو دیکھتے ہیں اس کو ہی سچ سمجھ کر اس پر فوری رد ِ عمل کا اظہار کرنا یا اس پر فوری اقدام اُٹھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔مگر کسی بات کی تصدیق نہیں کرتے یا سچ تک پہنچ کی کوشش نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہمیں مذکورہ قرآنی آیات کی طرح بعد میں پریشانی و ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ایک گھر کے موبائل نمبر پر رانگ نمبر سے کال آئی۔گھر میں ایک عورت نے موبائل کو رسیو کیا تو آگے سے غیر انجانی آواز سن کر عورت نے کہا سوری رانگ نمبر ہےـ اور فون بند کردیاـ لڑکے نے جب ہیلو کی آواز سن لی تو وہ سمجھ گیا کہ یہ کسی لڑکی کا نمبر ہےـاب اس رانگ نمبر کو ملانے والا لڑکا مسلسل اسی نمبر پر کال کرتا رہتا، لیکن وہ عورت فون نہ اٹھاتیـ پھر وہ میسج کرتا کہ جانو بات کرو ناں۔ موبائل کیوں نہیں رسیو کرتی؟ عورت کی ساس بڑی مکار اور لڑائی جھگڑے والی خاتون تھی اس واقعے کے ایک دن بعد موبائل پر رنگ ٹون بجی تو ساس نے موبائل رسیو کیا آگے سے لڑکے کی آواز سن کر ساس خاموش ہو گئی ‘ لڑکا بار بار کہتا رہا کہ جانی مجھ سے بات کیوں نہیں کرتی ؟میری بات تو سنو پلیز، تمہاری آواز نے مجھے پاگل کر دیا ہے۔
Mobile
ساس نے خاموشی سے سن کر موبائل بند کر دیا۔اب جب رات کو عورت کا شوہر گھر آیا تو ساس نے علیحدہ بلا کر اپنی بہو پر بد چلنی اور نامعلوم لڑکے سے یارانے کا الزام لگایا۔۔شوہر نے اسی وقت جاہلیت کا کردار ادا کرکے بیوی کی ایک بھی نہیں سنی اور بیوی کو رسی سے باندھ کر بے انتہا تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ جب وہ تشدد سے فارغ ہوا تو ساس نے موبائل ہاتھ میں تھما دی اور کہا کہ یہ نمبر ہے تمہاری بیوی کے یار کا۔شوہر نے موبائل کالز چیک کیں اور اس کے بعد میسج چیک کئیے تو لڑکے کے تمام میسجز موجود تھے جس میں کہا گیا تھا کہ جانی کیسی ہو ؟جانی بات کرو ناں ،جانی تمہاری آواز نے مجھے پاگل کر دیا ہے.۔جاہل شوہر تمام میسج پڑھ کر اور بھی سیخ پا ہوا اور ادھر ساس نے بہو کے بھائی کو فون کرکے بتایا کہ تمہاری بہن کو ہم نے اپنے یار کے ساتھ موبائل پر بات کرتے ہوئے اور میسج کرتے ہو پکڑ لیا ہے۔جس نے ہماری عزت خاک میں ملا دی ہے.اسی وقت اس لڑکی کا بھائی اور اس کی ماں اپنی بیٹی کی گھر آئے۔ادھر لڑکی کی ساس اور شوہر نے اس کے بھائی اور ماں کو طعنے دیے کہ تمہاری بہن بد چلن ہے۔
زانی ہے اور یہ اپنے یار کے ساتھ موبائل پر گپ شپ لگاتی اور ہماری عزت خاک میں ملاتی ہے.اس لڑکی کی بھائی نے بھی زمانہ جاہلیت کو مات دی اور اپنی بہن کو بالوں سے پکڑ کر خوب زدو کوب کیا۔لڑکی قسمیں کھا کر اپنی صفائی پیش کرتی رہی لیکن جاہل اور شیطان ساس اور شوہر کے آگے بے بس رہی۔لڑکی کی ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ نہا دو کر قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر اپنی صفائی پیش کرو لڑکی نے نہا دھو کر قرآن پاک پر بھی سب کے سامنے ہاتھ رکھ لیا لیکن شیطان ساس نے اس کو بھی ٹھکرا دیا اور کہا کہ جو لڑکی اپنے شوہر سے غداری کر سکتی ہے تو اس کے لئے قرآن پاک پر ہاتھ رکھنا بھی کوئی مشکل کام نہی ہے.اور اس کے ساتھ لڑکی کے جاہل شوہر نے وہ سارے میسجز لڑکی کے بھائی کو دکھا دئیے جو لڑکے نے لڑکی کو ایمپریس کرنے کے لئے کئیے تھے۔۔لڑکی کی ساس نے جلتی پر تیل چھڑکا کر کہا کہ تمہاری بہن چالاک اور مکار ہے.۔جس پر لڑکی کے بھائی کو غیرت آئی اور اس نے طیش میں آکر اپنی بہن کی ایک بھی نہ سنی اور پستول نکال کر اپنی بہن کے سر میں چار گولیاں پیوست کر دیں.اور یوں ایک رانگ نمبر کی وجہ سے ایک خاندان اجڑ گیا 6 بچے ماں کی ممتا سے محروم ہو گئے۔جب لڑکی کے دوسرے بھائی کو خبر ہوئی تو اس نے اپنے بھائی اور بہن کے شوہر اور ساس پر اور پر اس واقعہ کی ایف آئی آر کٹوا دی.جب پولیس نے اس موبائل کے ڈیٹا کو چیک کیاـ تو معلوم ہوا کہ لڑکی نے صرف ایک دفعہ رانگ نمبر کو رسیو کیا تھا۔۔ اور پھر وہ رانگ نمبر مسلسل میسجز اور کالز سے اس لڑکی کو پھنسانے کے چکر میں لگا رہا۔
موبائل فون کی ڈیٹا رپورٹ منظر عام پر آنے سے لڑکی کے جس بھائی نے بہن کو گولی ماری تھی اس نے اسی وقت جیل میں خودکشی کی اور رانگ نمبر ملانے والے لڑکے کو پولیس نے گرفتار کرکے جیل میں ڈالا۔یوں ایک رانگ نمبر نے 3 دنوں کے اندر ایک پاک دامن عورت کو اس کے 6 بچوں سے پوری زندگی کے لئے جدا کردیا.اور 10 دنوں کے بعد لڑکی کے بھائی نے خودکشی کر کے ایک اور عورت کو بیوہ اور اس کے 4 بچوں کو یتیم کردیا۔۔یوں 13 دنوں کے اندر 10 بچے یتیم اور 2 خاندان تباہ و برباد ہو گئے.ذرا سوچیئے قصوروار کون ؟ رانگ کال کرنے والا؟،روایتی مکار ساس؟،شکی مزاج و جاہل خاوند،حقائق سے بے خبرنام نہاد غیرت مند بھائی؟ہمارا معاشرہ؟؟ یا اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ؟؟؟ اسی لیے قرآن میں اللہ تالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ’ اگر کوئی فاسق تمہارئے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تصدیق کر لیا کریں ، ایسا نہ ہو کہ بعد میں تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے”۔