تحریر : عابد علی یوسف زئی دنیا میں بے شمار لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو محض نمود و نمائش کے لیے اپنی تاریخ پیدائش کچھ ایسے دنوں سے منسوب کر لیتے ہیں جو قومی یا عالمی سطح پر معروف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے یوم ولادت پر مبارک باد دینا بھی خلاف واقعہ ہے ،جبکہ کسی ایسی شخصیت اور دن کو منانا اور اس کے بارے میں مبارک باد پیش کرنا کہ جن کے متعلق اوّل تو یہ بات واضح ہے کہ ماضی میں ان تاریخوں میں سورج دیوتا ، سیّارے(Jupiter, Satum)یا دیگر بتوں کی پیدائش کا جشن منایا جاتا تھا۔ دُوم مسیح کی پیدائش کا دن تو درکنار سن پیدائش بھی معلوم نہیں۔ سِوُم یہ کہ عیسائیوں کا جس دن کے بارے میں عقیدہ یہ ہو کہ آج کے دن یعنی 25 دسمبر کو اللہ کا بیٹا پیدا ہوا تھا (معاذ اللہ )، ایک مسلمان کسی کو اس پر کیسے مبارک دے سکتا ہے ؟ یاد رکھیں!یہ وہ بات ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”اور اُنہوں نے کہا کہ رحمٰن نے کوئی اولاد بنالی ہے، بلاشبہ تم ایک بہت بھاری بات (گناہ) تک آپہنچے ہو۔ قریب ہے کہ اس بات سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گِر پڑیں کہ انہوں نے رحمٰن کے لیے کسی بیٹے کا دعویٰ کیا۔”
لہٰذا مسیحی حضرات کو مبارک باد دینا یا اس ضمن میں کسی بھی تقریب میں شرکت کرنا اسلامی نظریے کے مطابق درست نہیں، لیکن ہمارے کچھ نام نہاد علماے کرام اور آج کا ماڈریٹ مسلمان خواہ مخواہ اغیار کی تہذیب و تمدن سے مرعوب نظر آتا ہے اور بے علمی و جہالت اور نام نہاد روشن خیالی کے سبب نہ صرف مبارک باد اور خوشی کا اظہار کرتاہے ،بلکہ اس موقع پر برپا کی جانے والی شراب و شباب کی محافل میں شریک ہو کر اظہارِ یکجہتی کا عملی نمونہ بھی پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ ہے: ”دورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مَقام پر اونٹ قربان کرے گا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟ صحابہ نے عرض کی: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو کیا وہاں ان کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ صحابہ نے عرض کی: نہیں۔ تب آپ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو ،کیونکہ ایسی نذر کا پورا کرنا درست نہیں جو معصیت ہو یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو ۔”
اس سے واضح ہوا کہ مسلمان کا ان مشرکانہ مراسم اور مقامات سے دور رہنا شریعت کا کتنا واضح تقاضا ہے۔فقہاے کرام نے اس مسئلہ (غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت نہ کرنے اور مبارک باد نہ دینے) پر اجماع نقل کیا ہے۔ امیر المومنین عمر بن خطاب نے شام کے عیسائیوں کو باقاعدہ پابند فرمایا تھا کہ دارالاسلام میں وہ اپنے تہواروں کو کھلے عام نہیں منائیں گے اور اسی پر سب صحابہ اور فقہا کا عمل رہا ہے، چنانچہ جس ناگوار چیز کو مسلمانوں کے سامنے آنے سے ہی روکا گیا ہو ، مسلمان کا وہیں پہنچ جانا اور شریک ہونا کیوں کر روا ہونے لگا؟ اس کے علاوہ کئی روایات سے حضرت عمر کا یہ حکم نامہ منقول ہے:
”عجمیوں کے اُسلوب اور لہجے مت سیکھو۔ اور مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں ان کی عید کے روز مت جاؤ، کیونکہ ان پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔”
علاوہ ازیں کافروں کے تہوار میں شرکت اور مبارک باد کی ممانعت پر حنفیہ ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ سب متفق ہیں۔ فقہائے مالکیہ تو اس حد تک گئے ہیں کہ جو آدمی کافروں کے تہوار پر ایک تربوز کاٹ دے، وہ ایسا ہی ہے گویا اُس نے خنزیر ذبح کر دیا۔
کافر کو اُس کے مشرکانہ تہوار پر مبارکباد دینا کیسا ہے؟
اس پر امام ابن قیم الجوزیہ کہتے ہیں: ”یہ ایسا ہی ہے کہ مسلمان اُسے صلیب کو سجدہ کر آنے پر مبارکباد پیش کرے! یہ چیز اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے کہ آدمی کسی شخص کو شراب پینے یا نا حق یا حرام شرمگاہ کے ساتھ بدکاری کرنے پر مبارک باد پیش کرے۔”
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسلام تنگ نظر دین ہے۔ دین اسلام ہرگز تنگ نظری کی تعلیم نہیں دیتا بشرطیکہ حقیقی مذہبی تعلیمات کی خلاف ورزی نہ ہو۔ تعلیماتِ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ انبیا و رُسُل اس کائنات میں سب سے زیادہ برگزیدہ تھے، لہٰذا وہ لوگ ہمیں اُن سے محبت و عقیدت کی کیا تعلیم دیں گے جن کی اپنی کتابیں ان پر ایسے گندے اور گھناؤنے الزام لگاتی ہیں کہ پڑھنے والے کی شرم سے آنکھیں جھک جاتی ہیں ۔ یہ مقدس لوگ تو قیامت تک پوری انسانیت اور زندگی کے لیے رول ماڈل ہیں۔”ایک شام مسیح کے نام والا” فلسفہ بالکل غلط اور ناقص ہے۔ ہر صبح و شام اللہ اور اس کے دین کے نام ہونی چاہیے ۔ یہ لوگ محسنوں کی قدر اور رشتوں کا مقام ہمیں کیا بتائیں گے جو اپنے کتوں کو تو اپنے ساتھ سلاتے ہیں مگر اپنے والدین کو اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں۔ ان کے نزدیک تو تہذیب و تمدن کا مطلب ہی مذہب سے آزادی ، ناچ گانا ، مصوری ، بت تراشی و بت پرستی، مردوزَن کا اختلاط، کثرتِ شراب نوشی، جنسی آوارگی ، بے راہ روی، ہم جنس پرستی ، سود اور لوٹ کھسوٹ ہے ،یعنی ہر طرح کی مادرپدر آزادی جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
جبکہ اسلام کے نزدیک لفظ تہذیب کا معنی ہی سجانا ، آراستہ کرنا، حسِین بناناہے ۔ ہمارے یہاں ہر وہ عمل جزوِتہذیب ہے جو ہماری شخصیت کو حسین بنائے اور ہمارے کردار کو عظیم بنائے، نیز ہماری دنیا و آخرت کو سنوارے،یہ ہماری تہذیب ہے ۔ علم ، اخلاص، خدمت اور محبت ہماری تہذیب کے بنیادی اجزا ہیں۔ یہ ہے وہ تہذیب اور اسلام کی بے مثال تعلیم جو نہ صرف انبیاء علیہ السلام کی عصمت، عزت اور مقام و مرتبہ کی حفاظت کا حکم دیتی ہے بلکہ ان کی اطاعت و اتباع اور ان سے ہر وقت محبت اور ہر لمحہ ان کی اطاعت کرنے کا درس دیتی ہے۔