نیشنل لیبر فیدریشن پاکستان کے بانی، سابق صدر اور پاکستان ورکرز ٹرینگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ گلشن اقبال کراچی کے چیئرمین جناب پروفیسر شفیع ملک صاحب نے اپنی تحقیقی کتاب” یوم مئی” اس ناچیز کو تبصرے کے لیے بھیجی۔ پروفیسر صاحب کو ہم برسوں سے جانتے ہیں۔١٩٧٩ء میں ان سے شناسائی اس طرح ہوئی کہ ہم ایک ملٹی نیشنل میں ملازم تھے۔وہاں ایک یونین کام کر رہی تھی۔یونین کے لوگ اپنے صدر سے مطمئن نہیں تھے۔ہمیں لیبر حقوق کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھاپھر بھی ایک اجلاس میں لوگوں نے ہمیں صدر چن لیا۔لیبریونین کسی نہ کسی لیبر فیڈریشن سے الحاق کرتیں ہیں۔ ہم اسی سلسلے میں پروفیسر صاحب کی نیشنل لیبر فیڈریشن میں الحاق کے سلسلے میں گئے تھے۔ الحاق کیا ہوتا، انتظامیہ نے ہماری یونین کو ہی ختم کر دیا تھا۔نیشنل لیبر فیڈریشن کا ماحول اور شامل ہونے کے قوائد سے واقف ہوئے۔پھر یونین کے عہدے دار ہمارے ساتھی ہمیں ایک کیمونسٹ لیبر فیڈریرشن کے دفتر ناظم آباد لے گئے۔لیبر فیڈریشن،لیبر یونین کے عہدہ داروں کی تربیت کے لیے پروگرام ترتیب دیتی ہیں۔لیبر یونین کے عہداروں کی اپنے نظریات کے مطابق گرومنگ کرتیں ہیں۔ ایک تربیتی پروگرام میں ہمیں بھی تقریر کرنے کی دعوت دی گئی۔ ہمیں کیا معلوم کہ کیمونسٹ فیڈریشن کے تربیتی پروگراموں میں عالمی کیمونسٹ فلسفہ کے مطابق مزدور مزدور بھائی بھائی کے نعرے لگتے ہیں۔کسی فیکٹری یا ادارے میں بغیر جواز کے مزدور ہڑتال کرتے ہیں۔ پھر شہر کی ساری مزدور یونین یہ دیکھے بغیر کہ ہڑتال کا جواز بھی یا نہیں۔ ہڑتال کرنے والے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پہنچ جاتے۔ جلائو گھیرائو کرتے ہیں۔فیکٹریوں پر قبضے کر لیتے۔ ادارے کے خلاف نعرے لگاتے۔ اپنی ذمہ داری ادا کیے بغیر اور پیداوار بڑھائے بغیر بلا جواز اپنے کے حقوق مانگتے ہیں۔مالکان کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور پروڈکشن بند کر دیتے ہیں ۔ اداروں میں آجر اور آجیر کے حقوق کی پروا کیے بغیر فیکٹریوں پر مالکانہ حقوق کے نعرے لاتے ہیں۔اپنی بین الالقوامی کیمونسٹ مزدرو تحریک کے ایجنڈے پر عمل در آمد کے لیے بلا چوں چراں عمل کرتے ہیں۔مزدورں کے چندے کے پیسوں سے بڑے بڑے ہوٹلوں میںٹہرتے ہیں۔مہنگے کھانے کھاتے ہیں۔بعض موقعوں پر مل مالکان سے فاہدے بھی اُٹھاتے ہیں۔مزدور پیدل، سائیکل یا بسوں میں سفر کرتے ہیں جبکہ مزدور لیڈرگاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔
خیر جب ہم نے تقریر کرنا شروع کی تو مروجہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کہا کہ آجر اور آجیر کو ایک دوسرے کے حقوق کا اسلام میں بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق خیال کرنا چاہیے۔ مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینی چاہیے ۔ فیکٹری مالکان کو مزدرو کی فلاح بہبود کا خیال رکھنا چاہیے۔ مزدروں کو فیکٹری کی پروڈکشن بڑھانی چاہیے۔پھر اپنے حقوق کی بات کرنی چاہیے۔لیبر فیڈریشن کی صدر ایک نامی گرامی کیمونسٹ خاتون تھی۔ میری تقریر کے آدھے میں ہی کہا بس بیٹا بیٹھ جائو۔ خیر یہ تو ایک کہانی تھی جو ہمیں جتنی یاد تھی بیان کر دی۔
پروفیسر صاحب کو جماعت اسلامی پاکستان کے بانی مولانا مودودی نے مزدروں میں اسلام بیزار کیمونسٹ تحریک کے سیلاب کو روکنے کے لیے لگایا تھا۔ پروفیسر صاحب نے اپنی پوری زندگی اس کام کھپا دی۔پروفیسر صاحب نے پاکستان میں مزدور تحریک میں فعال کردار ادا کیا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی محنت سے پاکستان کی اسلامی مزدر تحریک نے پاکستان کے بڑے بڑے اداروں سے کیمونسٹ کے نامی گرامی لیڈروں کو بے دخل کیا۔ اس سے کیمونسٹ مزدور تحریک پاکستان میں سیکڑ گئی۔ پھر سویت یونین کے افغانستان میں فاقہ کش طالبان سے شکست کے بعد تو بلکل ختم ہو گئی۔پروفیسر صاحب نے نہ صرف پاکستان کے مزدروں کو اسلام میں دیے گئے آجر و آجیر کے اسلامی حقوق سے آشانا کیا، بلکہ ان کی ذہنی تربیت کے لیے کئی کتابیں بھی لکھی۔ کراچی میںمزدورں کی مستقل تربیت کے لیے پاکستان ورکرز ٹرینگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ قائم کیا۔ ان کی چیئرمین شپ میں یہ ٹرسٹ اب بھی کامیابی سے کام کر رہا ہے۔ مزدورں کی ذہنی تربیت کے لیے ہی پروفیسر صاحب نے ”یوم مئی” پر یہ تحقیقی کتاب لکھی۔اس کتاب کو لکھنے کے لیے پروفیسر صاحب نے انٹرنیشنل لیبر آرگینزیشن جنیوا سے افادہ کیا۔یہ کتاب پاکستان میںمزدروں کی فلاح بہبود اورحقوق کے چلانے والے اداروں،لیبر یونین اور لیبر فیڈریشنوں کے صدور اور متعلقہ حضرات، فیکٹریوں کے مالکان، صحافیوں اور دانشورں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ خاص کر مزدورں میں کام کرنے والے حضرات کو معلومات ملیں گی کہ ان کی دن رات کی محنت پر مخالف قوتیں نے مکاری سے کہاں کہاں ڈاکے ڈالے ہیں۔
پروفیسر صاحب کی تحقیق کے مطابق بظاہر شکاگو میں١٨٨٦ء میں مزدورں پر اپنے حقوق کے مظاہروں کے وقت مظالم کی وجہ سے یکم مئی کادن جو”یوم مئی” کے اصطلاحی نام سے منایا جاتاہے ، اس کے پیچھے ایک تحریک ہے۔عیسائی دنیا میں ایک طویل عرصے تک صرف تہوار کے طور پر منایا جاتا تھا۔انسائیکلوپیڈیا انٹرنیشنل کے مطابق اس بین الالقوامی تہوار کی رسومات پر درختوں کی روحوں کے طاقتور اور قوی ہونے کا عقیدہ تمام تہذیبوں میں مشترک تھا۔یہی عقیدہ رومن دیوی فلورا کے بارے میں قائم تھا۔اس میں ہر قسم کی بیہودگی روا رکھی جاتی تھی۔اس کے تعلق سے پول ڈانس کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ یوم مئی کے اس تہوار کو” یوم مئی” ١٨٩٠ء پیرس انٹرنیشنل کانگریس میں بنایا گیا۔پھراسے بین الالقوامی اشترکی مزدور تحریک کی شکل دے دی گئی۔کیمونسٹ انٹرنیشنل کے بیان کے مطابق اس کو طبقاتی کشمکش بنا کر اس میںبغاوت کی روح شامل کر دی گئی۔کہا گیا کہ مزدورں ایک ہو جائو اور اہل اقتدار کو تخت حکومت سے گرا دو۔
پروفیسر صاحب اپنی تحقیقی کتاب ”یوم مئی” کے صفحہ ٢٢میںفرماتے ہیںمندرجہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پاکستان میں اس سلسلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے۔ ایک ایسے دن کا انتخاب ہونا چاہیے جس سے نہ صرف مسلم ملکوں کے محنت کشوں کو بلکہ پوری عالم انسانیت کو حقیقی امن اورسکون کا پیغام دیا جا سکے۔قائد ، لیاقت علی خان اور خوجہ ناظم الدین صاحبان نے یکم مئی کو سرکاری چھٹی کا فیصلہ نہیںکیا۔ بلکہ بھٹو صاحب نے پارلیمنٹ اور سینیٹ کی قرارداد کے بغیر اپنی سیاسی ضرورت کے تحت یوم مئی کی چھٹی کا فیصلہ کیا۔لکھتے ہیں پاکستان نظریاتی ملک ہے اس میں اس تقاضوں کومدنظر رکھنا چاہیے۔
صاحبو! پروفیسر صاحب کی نیشنل لیبر فیڈریشن ،شروع سے ہی یوم مئی کی مخالف کرتی آئی ہے۔ بلکہ ضیاء الحق صاحب کے دور میں ان کی قائم کردہ مجلس شوریٰ نے بھی قرارداد منظور کی تھی جسے وفاقی وزیر محنت نے نہیں مانا۔ پروفیسر صاحب کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں غیر مسلموں کے بسنت کا تہوار،میراتھن ریس،یا ویلنٹائن ڈے کے بجائے اپنے نظریات کے مطابق پاکستان میں یوم مئی کے بجائے ”یوم خندق” ٨ ذیقعدہ کومنانا چاہے۔ یہ وہ دن ہے جس دن ایک اسلامی ریاست کے سربراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مدینہ کی اسلامی ریاست کے دفاع اور فلاع و بہبود کے لیے خود خندق کھودی۔اسلامی ریاست کے اصولوں کے مطابق مسلمانوں کے امیر عام آدمی کی سی زندگی گزارتے ہیں۔ عام آدمی کی فلاح بہبود پر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ جسے خود رسولۖ اللہ اور چاروں خلفائے راشدین نے کر کے دکھا یا۔پاکستان میںقائد اور لیاقت علی خان نے کر کے دکھایا۔ اس لیے اسلامی روایات کو رائج کرنے والے لوگوں میں شامل پروفیسر شفیع ملک صاحب کی بات مان کر اہل اقتدار کو پاکستان میں یوم مئی کے بجائے ”یوم خندق” کو چھٹی منظور کرنی چاہیے۔ شاعر اسلام علامہ اقبال نے کیاخوب کہا ہے:۔ جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمز غریب سلطنت ِ اہل دل فقر ہے شاہی نہیں