اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) تفصیلات کے مطابق راقم ماضی کی طرح یونیورسٹی میں پیش آمدہ مسائل کی نشاندہی کرتا رہا ہے اورحال ہی میں چند ایک خبریں بریک کی ہیں ۔جس کے نتیجہ میں مجھے اور میرے ادارہ (ڈیرہ غازیخان/اسلام آباد) کے چیف ایڈیٹراور ایڈیٹر کو فون کالز موصول ہوئیں جس میں بارہا مرتبہ یہ سوال پوچھا گیا کہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جوکہ عالمی تعلیمی ادارہ ہے اور گذشتہ تیس سالوں سے کام کررہاہے اور یہاں سے دنیابھر کے لاکھوں طلبہ اکنامکس، منیجمنٹ سائنسز، کمپیوٹر سائنسز، سوشیالوجی ،انجینرنگ، قانون،ادب اور اسلامیات سمیت چالیس سے زائد شعبہ جات سے فارغ التحصیل ہوکر اپنے مقامی مقامات پر نمایاں پوزیشنوں پر کام کررہے ہیں ،تو کیا میں اس ادارہ کی تذلیل و تحقیر اور بدنامی کررہاہوں؟ تو میں نے ان احباب کو جواب دینے کے ساتھ ساتھ ضروری سمجھا کہ اس سلسلہ میں ایک وضاحتی پیغام جاری کروں۔
واضح رہے کہ راقم اسلامی یونیورسٹی کو ماں کی گود کی مثل سمجھتاہے جہاں سے بچہ ابتدائی پرورش پاکر کائنات میں اقبال تک پہنچتاہے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اس تعلیمی ادارے میں ہی اپنی شعور کی منازل کو طے کرنا شروع کیا ہے اور اس یونیورسٹی سے علمی و فکری اور زبانوں کی تفہیم حاصل کی ہے تو ایسے میں یہ امر کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ میں اس عالمی تعلیمی ادارہ کو خداناخواستہ بدنام کرنا چاہتاہوں اور یہاں کے فضلاء و طلبا اور اساتذہ و منتظمین کی دل آزاری کرنا چاہتاہوں۔اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی یونیورسٹی عالم اسلام میں خصوصا اور آفاق عالم میں عموما اسلام کی درست تفہیم و تعلیم کا انتظام کررہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم طلبہ اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے یہاں پاکستان اس عظیم ادارہ میں آتے ہیں۔ جس کے سبببین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں چالیس سے زائدممالک کے طلبہ و اساتذہ اور ملازمین تعلیم و تعلم کے شعبہ کی خدمت کررہے ہیں۔ترکی،چین،انڈونیشا،تھائی لینڈ،سری لنکا،بنگلہ دیش،مصر ،سعودیہ عرب،اردن،الجزائر ،افغانستان اور افریقی ممالک کے طلبہ و اساتذہ مختلف علوم و فنون میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ایی بے مثل خدمات کے نتیجہ میںیونیورسٹی کے امیج کومجروح کرنے یا نقصان پہنچانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
البتہ یہ بات ضرور ہے انسانی معاشرے کی فطرت کے مطابق سماج کے تمام طبقات میں تفاوت اور افراط و تفریط ہوتی ہے تو اس عالمی ادارے میں بھی ایسے احباب موجود ہیں جو دانستہ یا نادانستہ طور پر یونیورسٹی کے عالمی معیار کو نقصان پہچانے کے ساتھ ساتھ اس مادرعلمی میں شرف تلمذ حاصل کرنے والوں کے مستقبل کے ساتھ مجرمانہ کھیل کھیل رہے ہیں۔اور اس امر کو خاصی تقویت 2012ء کے بعد ملی جب جامعہ میں سعودیہ عرب کے ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش بطور صدر تعینات ہوئے۔
چونکہ ان کی انگریزی سے ناواقفیت اور پاکستانی معاشرے سے غیر مانوسیت کے سبب انہوں نے قریبا 50سے زائد افراد کو اپنی خدمت و راہنمائی کے لئے چھوٹے بڑے عہدوںپر متعین کیاجس کے نتیجہ میں ان میں سے اکثریت کی تنخواہوں کا انتظام بھی سعودیہ عرب کے ریالوں سے کیا جاتاہے۔اس افسوسناک کمزوری کے نتیجہ میں اسلامی یونیورسٹی میں سہواًیا عمداً ایسی فضا پیداکی گئی ہے کہ یہ جامعہ صرف کسی ایک مکتبہ فکر کی سرگرمیوں کا محور و مرکز ہے جس کے نتیجہ میں سکالرشپس کی فراہمی،عمر ہ پیکجز سمیت ہاسٹل سہولیات و دیگر کے بے دریغ استعمال کیا جانے لگا۔
اس سبب سے راقم چند چہروں کی نشاندہی کرنا چاہتاتھا (اور ان شااللہ مزید چہروں سے بھی نقاب اتارا جائے گا)مگر میرے اس عمل میں غلطی سے یہ تاثر پیداہوگیا یا کیا گیا کہ میں یونیورسٹی کو بدنام یا ناکام ثابت کرنا چاہتاہوں ۔حاشا و کلا راقم اپنی مادر علمی کو نقصان پہنچانے کے لئے کوئی قدم اٹھائے ہاں یہ ضرور ہے کہ یہاں چھپے ہوئے ان معزز شخصیات کی نشاندہی ضرورکروں گا جو ملک و ملت کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔