تحریر : عتیق الرحمن گزشتہ ہفتے ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ اور سابق ڈجی آئی ایس پی آر کے بیان میں چند ابہامات موجود تھے جس پر اپنی رائے کا اظہار مستقبل میں کروں گا مندرجہ ذیل تحریر اسلامی یونیورسٹی کے ایک ”پیام جامعہ” کے ایڈیٹرسید مزمل حسین شاہ نے مجھے ارسال کیا انہوں نے اسے اپنی ذاتی رائے قرار دیا ہے اور اس کی اشاعت کا مطالبہ کیا میں اس تحریر کو بغیر کسی تبصرہ اور ترمیم کے قارئین کی خدمت میں پیش کرتاہوں۔ مکرمی ! گزشتہ کچھ عرصے سے ابلاغ عامہ کے مختلف پروگراموں ، تحریروں اور تجزیوں میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد زیر بحث ہے۔
کسی ادارے کا زیر بحث آنا بذات خود نقصان دہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے ادارے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے لیکن بد قسمتی سے اسلامی یونیورسٹی کو دہشت گردی اورا نتہا پسندی سے جوڑا جا رہا ہے ۔ اس امر نے مجبور کیا ہے کہ یہ چند سطور تحریر کی جائیں۔ مکرمی!پندرہویں صدی ہجری کے آغاز میں دُنیا بھر میں چند اسلامی یونیورسٹیاں قائم ہوئی تھیں اُن میں سے اہم ترین اسلام آباد کی یہ یونیورسٹی اور ملائیشیا کی اسی طرز کی یونیورسٹی تھی۔
1980ء میں 13 طلبہ کے ساتھ شروع ہونے والی یہ یونیورسٹی اب 25 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات کو مختلف علوم و فنون میں تعلیم دے رہی ہے بہت سے لوگ لفظ ”اسلامی”کو دیکھتے ہی یہ نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کہ یہ کسی مدرسے کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہو گی۔ بلاشبہ مدرسہ ایک محترم ادارہ تھا۔ رسول اکرم نے پہلا مدسہ ”الُصفہ ”کے نام سے قائم کیا تھا۔ اس لحاظ سے مدرسہ کی بہترین شکل ہونے پر بھی کسی قسم کی شرمندگی نہیں ہونی چاہئیے لیکن بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اس سے بڑھ کر ہے۔
Science Student
اس میں روایتی اور عصری ہر طرح کے علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تمام سائنسی علوم پڑھائے جا رہے ہیں سوائے طب کے اور جلد ہی طب کا شعبہ بھی قائم ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت یونیورسٹی میںنو (9 ) کلیات اورچالیس) (40 شعبہ جات ہیں ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام کلیات اور شعبہ جات طالبات کے لئے الگ ہیں ۔ اس طرح یہ دو یونیورسٹیاں ایک ساتھ چل رہی ہیں ۔ یونیورسٹی کے تحت کئی تحقیقی ادارے اور اکادیمیاں بھی الگ سے موجود ہیں۔
اس وقت پروپیگنڈہ یہ کیا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی دہشت گردی کی آ ماجگا ہ بنی ہوئی ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یونیورسٹی تو چند سال قبل دو بم دھماکوں میں خود کئی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو چکی ہے یعنی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے ۔ وہ کیوں ناراض ہیں؟اس لئے کہ یونیورسٹی میں تنوع پایا جاتا ہے ۔ مختلف زاویہ ہائے نظر کے لوگ موجود ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ہونا بھی یہی چاہئیے۔
ایک دوسرے کی رائے کو احترام سے سُنا جا نا چائییے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کی آزادی ہونی چائییے، اسلامی یونیورسٹی میں لوگ ایک دوسرے کی سُنتے ہیں اور سن کر اپنی رائے قائم کرتے ہیں لیکن اپنی رائے مسلط نہیں کرتے ۔ یونیورسٹی کے دروازے کھلے ہیں جسے بھی اعتراض ہو خود اپنی آ نکھوں سے جائزہ لے سکتا ہے۔