اسلامی یونیورسٹی سے متعلق میرے مضامین لکھنے کا مقصد اصلی کیا ہے؟

Islamic University

Islamic University

تحریر: عتیق الرحمن اسلام آباد
میں کوئی تقریباً گذشتہ سات سال سے اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوں اور اس عرصہ میں اس تعلیمی ادارے کے روز بروز بدلتے حالات اور انتظامیہ پر کڑی نظر رکھتاہوں ۔اسلامی یونیورسٹی سے محبت و عقیدت اس طویل عرصہ کی رفاقت کا ثمر ہے۔ بحیثیت غیرت مند مسلم اور ذی شعورانسان کے اس عظیم ادارے کی کامیابی و کامرانی کو اپنی کامیابی اور اس کے تنزل و ناکامی کو اپنی ناکامی و تنزلی سمجھتاہوں اور اس کی عظمت و ذلت پر اپنی پر خوش یا دکھ و الم کو محسوس کرنا میرا فریضہ ہے۔چونکہ انسان جس جگہ رہتاہے یا جہاں سے فائدہ حاصل کرتاہے اس جگہ کے ساتھ وابستگی اور اس کے اچھے اور برے سے اس کی شخصیت پر اثرات کا نمودار ہونابدیہی نتیجہ ہے۔

طویل مدت سے اخبارات میںمختلف موضوعات پر مضامین لکھتاہوں جن میں سماجی و معاشرتی مسائل،تعلیمی و طلبہ کے مسائل اور دینی و فکری موضوعات پر قلم کو جنبش گاہے بگاہے دیتارہتاہوں۔اسی امر کا نتیجہ ہے کہ میں اسلامی یونیورسٹی میں مستمر امور کے مشاہدات کی روشنی میں وقتا فوقتا مضامین یونیورسٹی کی حمایت اور مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے تحریر کیے۔المیہ یا افسوس کی بات یہ ہے کہ میرے ان مضامین سے متعلق بعض اسلام دشمن یا یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ علم دشمن اور ملک دشمن سبھی میرے مضامین کا غلط مقصد پیش کرتے رہے ہیں اور خود یونیورسٹی انتظامیہ بھی افراط و تفریط کا شکار رہی ہے ۔ظلم تو یہ ہے کہ انہوں نے مجھ پر بغیر استفسار کیے الزامات کی خود میری ذات گھٹیاالزامات عائد کیے جارہے ہیں اور میرے ساتھ چلنے پھرنے والوں کو بھی ہدف تنقید بنایا یہاں تک کے متعدد یونیورسٹی کے اساتذہ ،طلبہ اور ملازمین کو میرا سماجی بائیکاٹ پر کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ مختلف ذرائع یہ بھی پتہ چلاہے کہ مجھے یونیورسٹی سے بے دخل کرنے کی گھٹیا سازش بھی تیار کی جارہی ہے۔ایسے میں میں یہ ضروری سمجھتاہوںکہ میں اپنے مضامین کا مقصد واضح کروں۔

ایک۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ایک عظیم تعلیمی ادارے کے ساتھ ایک عظیم دانش گاہ بھی ہے ۔اس میں دنیابھر سے طلبہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے آتے ہیں ۔اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس یونیورسٹی کے قیام کے اساسی مقاصد کو برقرار رکھنا اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا لازمی و ضروری سمجھتاہوں ۔دس سالوں میں خاص طور پراسلامی یونیورسٹی علم و فن میں مہارت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیمات سے مزین باثر و طاقتور افراد کی جماعت تیار کرنے میں ناکام رہی ہے ۔تعلیمی ادارے کا سماج میں اہم اور اساسی کردار ہوتاہے ۔میں یہی مطالبہ کرتاہوں کہ یہ ادارہ اپنے اساسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اصلاح احوال کرتے ہوئے رائج تمام خامیوں کو دور کرکے اس کے حقیقی و منفرد روشن کردار کو اجاگر کیا جائے۔

Education

Education

دو: اسلامی یونیورسٹی واحد تعلیمی ادارہ ہے جو کہ دینی و عصری علوم کی بیک وقت تعلیم دیتاہے ۔مگر افسوس یہ اس بات پر ہے کہ اس ادارے نے مدارس و عصری اداروں سے پیداہونے والے علمی و فنی اور فکری و تربیتی خلاکو پر کیا ۔جب کہ اس ادارے کا یہ امتیاز ہونا چاہیے تھا کہ یہاں سے کسی بھی شعبہ سے فارغ التحصیل طالب علم دینی و عصری تعلیم دنوں کا شاہ سوار ہونا چاہیے تھا ۔ تین:اسلامی یونیورسٹی کسی مسلک و مذہب یا کسی سیاسی و قومی یا لسانی جماعتوں کی آماجگاہ بننے کی بجائے صرف اور صرف اسلامی تعلیمی ادارہ لہٰذا اس کو تمام طرح کی بیرونی وملکی سیاسی و مذہبی اور منافرت و تفریق پیداکرنے والی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے یا آزادی اظہار کے حق کو محفوظ رکھتے ہوئے ایسے احباب کے لیے دائرہ کار و لائحہ عمل مختص کرنے کے ساتھ ہی اس پر دیانیت داری کے ساتھ بلاتفریق و امتیاز کے عمل کیا جائے۔

چار: اسلامی یونیورسٹی میںاصول الدین ،شریعہ اینڈلاء اور عربی فیکلٹی (دیگرکلیات ) میں متخصصین اساتذہ کا تقرر بغیر سفارشی اور صوابدی یا تعلقات کی بجائے علم دوستی اور تعلیم دینے کی مہارت رکھنے والے احباب کو کیا جائے ،صرف زبان اور درجات کی بنیاد پر اساتذة کا چنائو کرنا علم دوستی کا ثبوت نہیں۔ اسی طرح طلبہ کو باصلاحیت بنانے کے لیے سی بی ایس سے ڈگری کی تکمیل تک علمی و فکری اور اخلاقی تربیتی مراحل سے گذارا جانا چاہیے ۔ پانچ: اسلامی یونیورسٹی کی تمام کلیات اور شعبہ جات میں اسلامی مضامین کی عملی تعلیم دی جانے چاہیے اور خاص طور پر سائنس،انجئنرنگ سمیت تمام علوم کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرکے پیش کرنے کا کام ایمانی فریضہ سمجھتے ہوئے اداکیا جانا چاہیے۔

Restrictions

Restrictions

چھ: اسلامی یونیورسٹی میں انتظامیہ ،طلبہ اور اساتذہ پر قانونی پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اخلاقی طور پر علمی چوری اور بددیانتی کے نقصانات اور بحیثیت مسلم و انسان فرائض و واجبات سے آگاہ کرنے کے لیے گاہے بگاہے مختلف زبانوں میں تربیتی ورکشاپس ، سمینار وغیرہ کا اہتمام کیا جائے۔ سات اسلامی یونیورسٹی کا منفرد تشخص یہ بھی تھا کہ اس میں عرب اساتذہ مختلف علوم و فنون کی تعلیم دیتے تھے اب جس میں انجانے یا جانتے ہوئے کمی پیداکی گئی ہے۔ عالمی ادارہ ہونے کی حیثیت سے لازمی ہے کہ اسلامی یونیورسٹی میں عرب و ترکی سمیت مختلف ممالک سے ماہرین علم و فن طلب کیے جائیں جس سے علمی و فکری پختگی کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کا اساسی ومنفرد مقام واضح ہوگا۔

آٹھ: اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ کو بہتر طورپر علمی استفادے کے لیے ضروری لوازمات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہاسٹلز، لائبریز، تعلیمی بلاک کی تعمیر کو یقینی بنانے کے ساتھ ہی فیسوں میں کمی کی جائے۔ باصلاحیت افراد کی تیاری کے لیے لازمی ہے کہ داخلے کے معیار کو سخت کیا جائے۔ نو:صدر جامعہ ،ریکٹر ،ڈین کلیات اور سربراہان شعبہ جات سمیت تمام تر تعلیمی و انتظامی عہدے من پسند افراد میں تقسیم کرنے کی بجائے علمی دیانت و امانت کے حاملین کو متعین کیا جانا چاہیے۔ دس:یونیورسٹی کے وسائل کو مکمل دیانت داری کے ساتھ خرچ کیا جانا چاہیے غیرضروری و لاحاصل سرگرمیوں اورمقامات پر صرف کرنے کی بجائے طلبہ پر تعلیم کے راستے کو کھولنے کے لیے صرف کیے جانے چاہیں۔

گیارہ: یونیورسٹی کے طلبہ میں عمرہ پیکج،سکالرشپس مختلف طورطریقوں کے ذریعہ طلباء کی زبان بندی اور ان کے ضمیروں کے خریدنے کا عمل بند کرکے غریب و مستحق اور نادار طلبہ کی مخلصانہ مدد کی جائے۔
بارہ:تمام مضامین لکھنے کا مقصد نہ تو ذاتی شہرت و منفعت اور اغراض کا حصول ہے اور نہ ہی کسی فرد یا جماعت سے بغض و عداوت اور حسد سبب بناہے اور نہ ہی ان تحریروں کے ذریعہ سیکولر اور لادین طبقوں کی خدمت و معاونت یا ان کی کسی درجہ حمایت مقصود ہے کیوں کہ میں یہ جانتاہوں کہ وہ نہ صرف اسلام دشمن ہیں اور ملک دشمن ہونے کے ساتھ وہ اسلام کے نام پر بننے والی یونیورسٹی کو پھلتاپھولتانہیں دیکھ سکتے اور ان کی ہر کوشش اس عظیم ادارہ کو مجروح و بدنام کرنے پر صرف ہوتی ہے ۔واضح رہے ماضی کی طرح اب بھی اسلامی یونیورسٹی کی طرف میلی آنکھ اٹھانے والوں کے خلاف بذریعہ قلم جہاد کرنے والوں میں میں ان شااللہ صف اول میں شریک رہوں گا۔

Flaws

Flaws

امید کرتاہوں کہ یونیورسٹی انتظامیہ مندرجہ بالا مطالبات پر بتدریج عمل شروع کردے گی ۔اصلاحات کے عملی آغاز تک راقم اپنی تحریروں کے ذریعہ متنبہ کرتارہے گا اور خامیوں کی نشاندہی کرتارہوں گا اس سلسلہ میں کوئی دھمکی یا لالچ میرے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی ۔
اس کے ساتھ میں یہ بھی دو اہم امور کی طرف نشاندہی کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ اول: اسلامی یونیورسٹی ایک عالمی معیار کا تعلیمی ادارہ ہے۔ اس یونیورسٹی کے خلاف سیکولر اور لادین طبقوں کی جانب سے مختلف حیلوں اور بہانوں سے طعن و تشنیع کے بازار کی میں سختی کے ساتھ مخالفت کرتاہوں ۔ ایسے عناصر کے خلاف ببانگ دہل آوز بلند کرنا اپنا فریضہ جانتاہوںآئندہ تحریر میں ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ میں موجود خامیوں کی نشاندہی کروں گا۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح کرنا چاہتاہوں کہ راقم اسلامی یونیورسٹی کے تشخص کو کسی بھی طرح سے مجروح کرنے یا نقصان پہنچانے والے عناصر خواہ وہ نام نہاد اسلام پسند ہی کیوں نہ ہوں ان کے خلاف بھی آواز بلند کروں گا کیوں کہ میں یہ سمجھتاہوں کہ یہ تعلیمی ادارہ ایک غیر جانبدار خالص اسلامی تعلیمی ادارہ ہے اس میں نا تو اسلام دشمن سازش کو قبول کیا جاسکتاہے اور نہ ہی اس میں کسی فرقہ یا گروہ کی بالادستی کو فروغ دینے کی حمایت کی جاسکتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک عرصہ سے متعدد طلبہ و اساتذہ اور ملازمین کو میرا سماجی و معاشرتی بائیکاٹ پر اکسایا گیا ہے اس کے دواسباب ہوسکتے ہیں کہ اول تو میں کسی فرد و شخصیت کے ایماء پر مضامین تحریر کرتاہوں۔اور دوسرا سبب یہ ہے کہ میرے ساتھ چلنے والے افراد میرے مئوقف کے حامی ہیں۔

ان دونوں صورتوں کی روشنی میں میں بڑی شدت و سختی کے ساتھ مذمت کرتاہوں اور یہ واضح طور پر کہتاہوں کہ میں اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے دیگر افراد کی طرح طالب علم ہوں میرے قطع تعلقی کی ترغیب دینا باعث تشویشناک امر ہے اور دوسری بات یہ کہ میں جو کچھ بھی لکھتاہوں یا کہتاہوں اپنے مضامین میں یا ملاقاتوں میں یہ سب میراانفرادی وذاتی مئوقف ہے ۔اس امر کو میرے تعلیم کے حصول کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے یا میرے سبب سے کسی فردو شخصیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش و سازش کے خلاف اپنا مئوقف سختی کے ساتھ پیش کرنے کا حق محفوظ رکھتاہوں ۔چوں کہ پاکستان ایک اسلامی اور جمہوری ملک ہے اس میں ہرفرد کو اختلاف رائے کا حق دیاگیا ہے مگر جرم اس صورت میں بنتاہے جب میں جبر و طاقت کے ساتھ کسی پر اپنی بات نافذ کرنے کی کوشش کروں ۔
دیس کی بات

Atiq Rahman

Atiq Rahman

تحریر: عتیق الرحمن اسلام آباد
[email protected]
03135265617