امریکی (جیوڈیسک) صدر براک اوباما نے دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی حملوں میں عرب ممالک کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ’جنگ صرف امریکہ کی نہیں ہے‘۔ امریکی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنا آیا ہے جب گھنٹوں پہلے امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں نے دولت اسلامیہ کے خلاف پہلی فضائی کارروائی کی۔
شام سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شام میں کیے گئے حملوں میں دولت اسلامیہ کے ستر جبکہ القاعدہ سے منسلک پچاس شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکی صدر نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان حملوں میں سعودی عرب، عرب امارات، اردن، بحرین، اور قطر نے یا تو حصہ لیا اور یا امریکہ کو ان ممالک کا تعاون حاصل تھے۔
محکمۂ دفاع کے ترجمان ریئر ایڈمرل جان کربی کے مطابق پیر کی شام کی جانے والی کارروائی میں جنگی طیارے اور ٹاماہاک میزائل استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل پینٹاگون کے ترجمان نے نے کہا تھا ’چونکہ یہ کارروائیاں جاری ہیں اس لیے ہم اس وقت مزید معلومات فراہم نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں کارروائی کرنے کا فیصلہ امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل لائیڈ آسٹن نے اس اختیار کے تحت کیا جو انھیں کمانڈر ان چیف یعنی امریکی صدر نے دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں شام کے شمال مشرقی شہر رقہ کو نشانہ بنایا گیا ہے جو دولتِ اسلامیہ کا ہیڈکوارٹر ہے۔ شامی حکومت کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ اسے امریکی حکام نے رقہ کو نشانہ بنانے کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ شام میں حقوقِ انسانی کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 20 شدت پسند مارے گئے ہیں۔
امریکی صدر براک اوباما نے 11 ستمبر کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی کارروائی کا دائرہ عراق سے بڑھا کر شام تک پھیلانے کا اعلان کیا تھا انھوں نے دولتِ اسلامیہ کو تباہ و برباد کر دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک شام میں بھی دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی سے نہیں ہچکچائے گا اور امریکہ کو دھمکی دینے والے کسی بھی گروپ کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔
امریکی طیارے اگست سے اب تک عراق میں دولتِ اسلامیہ کے 190 ٹھکانوں پر حملے کر چکے ہیں۔ 19 ستمبر کو ان حملوں میں فرانسیسی طیارے بھی شامل ہوگئے ہیں جو اس سے قبل نگرانی کی کارروائیاں سرانجام دے رہے تھے۔ روس امریکہ کی جانب سے شام میں فضائی حملوں کے حق میں نہیں اور اس نے خبردار کیا ہے کہ جنگجوؤں کے خلاف کسی قسم کی امریکی فوجی کارروائی بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہو گی۔ روسی وزارت خارجہ کہہ چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کیے بغیر کسی قسم کی کارروائی کو کھلی جارحیت تصور کیا جائے گا۔