تحریر : ڈاکٹر احسان باری ہر بڑے سرمایہ کے پیچھے ایک دھاندلی ہوتی ہے آپ ہزاروں طریقوں سے چیک کرلیں تقریباً سبھی صنعتی ادارے ، ساہوکارے اور بڑے کاروبار زیر زمین خفیہ ہیرا پھیریوں سے ہی جنم لیتے اور ترقی پذیرہوتے ہیں۔ ہر گلی کا دوسراان پڑھ آدمی ایک ہی بات دھرائے جارہا ہے کہ یہ آف شور کمپنیاں الف لیلوی داستانوں کی طرح ہیں۔ اور کسی نے یو نہی ہوائی چھوڑ دی ہے۔کچھ افراد کہتے ہیں کہ یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔عوامی رائے یہ بھی ہے کہ ان کا کچھ نہیں ہو سکتا نہ یہ پکڑے جائیں گے اور نہ ہی ان سے مال بر آمد ہو سکے گا۔جب تک یہ گرفتار ہو کرکسی دور دراز دیہاتی تھانہ میں برائے تفتیش نہیں بھیجے جاتے ان کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا سائیکل چور سے تو پولیس منٹوں میں برآمدگی کر لیتی ہے ۔تو بڑے ڈکیتوں اور کھربوں ڈالر مال بے رحم سمجھ کر لوٹ لے جاکر جمع کرنے والوں سے کو نسا کمیشن عدالتی ہو یا پارلیمانی یا دیگر کمیٹی مال کی وصولی کرسکتی ہے۔کہ ان ڈاکوئوں کے تو گروہ ایسے منظم ہیں کہ ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا دوست یا خود وزارتوں یا سفارتوں پر متمکن رہتے ہیں۔
پھر ہمارے ہاں تو مقتدر لو گوں سے پوچھ گچھ کرنا بھی ڈی پی او شارق کمال کی طرح صوبہ بدری کی بھینٹ چڑھ جانا ہے۔تو پھر ان ڈکیتوں کے سرغنوں اور کرپشن کنگز سے مال کون برآمد کرسکے گا۔ چھوٹو گینگ معمولی دیہاتی آدمی ہو کر لوٹا ہوا مال بکھیرنے کا ماہر تھا ۔ہر مقتدر فرد اور علاقہ کے بااثر افراد کے منہ کومرغن ہڈی لگی ہوتی تھی۔اس طرح اس کا کاروبار آسمان سے باتیں کرتا رہا۔وہ تو ایک یونین کونسل کی سطح پر چند دیہاتوں میں اپنی ناقص عقل سے حکمران تھا ور سکہ جمائے بیٹھا تھا۔مگر جن ڈکیتیوں کے ماہراوراس شعبہ کے پی ایچ ڈی کیے افراد سے سبق آموزہ شاگردوں کا ذکر پہلے وکی لیکس اور اب پانامہ لیکس میں آشکار ہو تا جارہا ہے۔
یہ تو بڑی بڑی صنعتی ایمپائروں اور بیرونی پلازوں کے مالک ہیں ۔بنک کے ڈاریکٹرو منیجر جن کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں ان کو پکڑنا اور ان سے مال برآمد کرنا ناممکنات کا کھیل نظر آتا ہے ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے دوسرے ممالک میں عوام نے دبائو ڈال کر کئی وزرائے اعظم گھربھیج دیے ہیں مگر ہم ابھی کمیٹیوں کمیشنوں کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں در اصل اند رکی بات یہ ہے کہ سبھی بڑی سیاسی پارٹیوں کے اہم لیڈر آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں یعنی بڑے چوروںکو پکڑنے والے خود بھی چھوٹے موٹے چور ہی ہیں تو اب نورا کشتیوں کا دور کیوں نہ چلے ۔ایک دوسرے کے خلاف مغلظات کی بارش برس رہی ہے اور رکیک زبان سے حملے ہو رہے ہیںمگر سبھی کا اندر سے دل یہی چاہ رہا ہے کہ اسی طرح دھما چوکڑی مچی رہے اور اس اڑتی دھول میں سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو وگرنہ ہم خود بھی تو پکڑے جائیں گے۔
Panama Leaks
عوام ان لیکس کمپنیوں کو خدا کی طرف سے ایک ایسا عذاب سمجھ رہے ہیںجس کے بارے میں بھوک سے بلکتے اور خود کشیاں کرتے بچے عرصہ دراز سے دعائیںمانگ رہے تھے مہنگائی کا جو جن پسے ہوئے طبقات کا خون چوس چوس کر کھسیانی ہنسی ہنستا ننگا ناچ ناچ رہا تھا۔اس کا کوئی نتیجہ تو برآمد ہونا ہی تھا۔سچ پو چھیں تو حالات اس ڈگر تک پہنچ چکے ہیں کہ عوام الناس ا ن تقریباً چار پانچ سو معاشی ناسور افراد کو پھندوں سے بندھا فوراًالٹا لٹکتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاکہ یہ سبھی خونخوار معاشی دہشت گرد سار الوٹا ہو امال اِدھر اُدھر نہ کردیویں۔فوراً حکمران ان سبھی کے نام ای سی ایل میں ڈال دیں تاکہ یہ کسی صورت باہر نہ بھاگ سکیں کہ پھر ان کو زرداری و مشرف کی طرح واپس لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔
بھلا سوچیں تو سہی ہندوستان میں موجود جاتی امر انامی چک کے سیپی دار لوہاروں نے کیسے درجنوں فیکٹریاں لگائیں اور پھر اس کے پوتے پوتیوں نے کھربوں روپوں سے آف شور کمپنیاں بنائیں اور پھر اسی جاتی امرا کے نام سے ایک ریاست قائم کرکے اس میں درجنوں محلات تعمیر کرڈالے اسی طرح ایک کھلنڈرے نو جوان کرکٹر نے 1986یعنی آج سے تیس سال پہلے لندن میں نیازی نام سے آف شور کمپنی بنا کر ٹیکس دیے بغیر فلیٹ کی خرید اور فروختگی کے ذریعے لاکھوں ڈالر پاکستان شفٹ کرکے ایکڑوں پر مشتمل بنی گالا محل بنا ڈالا۔قوم بجا طور پر پوچھ رہی ہے کہ بغیر محنت و مشقت کے جغادری سیاستدان اور ان کی اولادیں تو کھربوں کما اور محلات میںرہتی ہیں اور ہم جو بیسیوں سال سے جان جوکھوں میں ڈال کر محنت و مشقت کرتے ہیں ہمیں چار سو روپے دیہاڑی بھی نہیں ملتی تو پھر ہم گھر کا دال دلیا نہ چلنے کے بموجب خود کشیاں نہ کریں تو اور کیا کریں؟۔
عوام کی آنکھوں میں خون اترا ہو اہے ہر صورت ان کو کیفر کردار تک پہنچتادیکھنا چاہتے ہیں فوراً مقدنات بنے اور چلائے نہ گئے تو چالاک لومڑوں کی طرح یہ لوگ کوئی نئی آف شور کمپنی بنا کر سب کچھ بیچ کھائیں گے اور آیا بلا سارا دودھ پی گیا تو بیٹھی چرخہ کات والا معاملہ بن جائے گا۔اقتدار ہو یا حزب اختلاف سب رنگ بازیاں کر رہے ہیں لو گ بھی سمجھتے ہیں کہ لٹیرے سرمایہ دار ننگے نہیں بلکہ الف ننگے ہو گئے ہیں۔
Law
ہمارے ہاں تو ان کا ننگ ڈھکنے کے لیے نہ تو انھیں کپڑے پہنائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی56کے ایکٹ کے تحت ان کے خلاف کوئی کاروائی ہو سکتی ہے بقول سپریم کورٹ تو ایسا کرنا مذاق محض بن جائے گا ۔نتیجہ نکلا بھی تو بھی ڈھاک کے تین پات والا معاملہ ہی رہے گا۔ آمدم برسر مطلب کہ ہر بڑے کام کے لیے سیکورٹی فورسز کو بلاوا بھیجا جاتا ہے ۔چھوٹو گینگ کا مسئلہ انہوں نے حل کیاگیلانی کا بیٹا انہی کی تگ و دو سے واپس ہو سکا سیلاب ہویا زلزلہ آئے فوج ہی میدان میں اترے دہشت گروں کا قلع قمع فوج کر رہی ہے ۔تو پھر ان چار پانچ سو معاشی دہشت گردوں کو افواج پاکستان کے حوالے کرنے میں کیا مسئلہ درپیش ہے۔
عام دہشت گردوں کو فوجی عدالتیں ہی جلد از جلد فیصلے کرکے ٹانگ رہی ہیں ۔جن لوگوں نے 20کروڑ عوا م کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سرمایوں کے ڈھیر بیرون ملک بھیج ڈالے ہیں کیا یہ افراد عام دہشت گردوں سے کم مجرم ہیں یقینا نہیں یہ تو دہشت گردوں کے باپو ہیں اور انہی کے طفیل تو عام دہشت گرد پھلا پھولا ہے یہ تو پورے ملک کے غریب عوام کا خون نچوڑ کر لے گئے ہیں یہ سبھی یقینا آج اور کل مقتدر افراد ہی ہیں۔
جنھوں نے سرکاری بنکوں کو شیر مادر سمجھ کر ا ن کا سارا سرمایہ باہر شفٹ کرڈالا ہے۔فوجی عدالتوں میں ان کا فیصلہ تین ماہ کے اندر اندر ہو سارا مال برآمد کرکے انھیں نشان عبرت بنا ڈالیں تو چھوٹے موٹے ٹٹ پونجئیے سبق سیکھ جائیں گے۔جو ان سے رعایت کرے گا راندۂ درگاہ ہو کر رہ جائے گا۔ قوم جلد فیصلے کی منتظرہے کہ اسی طرح ملک معاشی طور پر مضبوط ہو کر اسلامی فلاحی مملکت بن سکے گا۔